Monday, December 18, 2023

صــلـی اللّٰـــــہ علــیـہ والـــہ وســــلم

ہدایت یافتہ

  اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ : آباد کرنے میں مساجد کی تعمیر، ان میں نمازوں کے لیے آنا، صفائی، روشنی، مرمت اور نگرانی وغیرہ سب چیزیں شامل ہیں اور یہ صرف ان لوگوں کا کام ہے جن میں خصوصاً چار چیزیں پائی جائیں : 

1۔ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان

2۔  نماز کا قیام

3۔ زکوٰۃ کی ادائیگی

4۔ اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنا، 

جبکہ مشرکین ان چاروں صفات سے عاری ہیں۔ 


مساجد کی تعمیر، آباد کاری اور ان کا ادب و احترام نہایت اعلیٰ درجے کا عمل ہے۔ 

جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :۔

◄۔۔ سیدنا عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا ہے کہ جس نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے مسجد بنائی اللہ ویسا ہی گھر اس کے لیے بہشت میں بنائے گا۔ 

(بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب من بنی مسجدا )


◄امیر المومنین عثمان (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : 

” جو شخص اللہ کے لیے کوئی مسجد بنائے تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے اس جیسا گھر بنائے گا۔ “ 

[ بخاری، الصلاۃ، باب من بنی مسجدًا : ٤٥٠ ]


◄ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : 

” اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام بلاد (جگہوں) میں سب سے زیادہ محبوب ان کی مسجدیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں تمام بلاد (جگہوں) سے زیادہ ناپسند ان کے بازار ہیں۔ “ 

[ مسلم، المساجد، باب فضل الجلوس فی مصلاہ۔۔ : ٦٧١ ]   


◄۔۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سائے میں رکھے گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ١۔ عادل بادشاہ، ٢۔ وہ جوان جو جوانی کی امنگ سے اللہ کی عبادت میں رہا۔ ٣۔ وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے، ٤۔ وہ دو مرد جنہوں نے اللہ کی خاطر محبت کی پھر اس پر قائم رہے۔ اور اسی پر جدا ہوئے، وہ شخص جسے کسی حسب و جمال والی عورت نے (بدی کے لیے) بلایا مگر اس نے کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ مرد جس نے داہنے ہاتھ سے ایسے چھپا کر صدقہ دیا کہ بائیں ہاتھ تک کو خبر نہ ہوئی۔ وہ مرد جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کے آنسو بہہ نکلے۔ 

(بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الصدقۃ بالیمین)


◄۔۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا فرشتے اس شخص کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں جو نماز پڑھنے کے بعد مسجد میں اپنی نماز کی جگہ پر بیٹھا رہے جب تک اس کو حدث لاحق نہ ہو۔ فرشتے یوں کہتے رہتے ہیں۔ یا اللہ اس کو بخش دے یا اللہ اس پر رحم کر۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب الحدث فی المسجد)


◄۔۔ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا اتنے میں ایک شخص نے مجھ پر کنکر پھینکا ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ عمر بن خطاب ہیں ۔ مجھے کہنے لگے جاؤ ان دو آدمیوں کو بلا لاؤ۔ میں بلا لایا۔ سیدنا عمر نے ان سے پوچھا کہاں سے آئے ہو ؟ وہ کہنے لگے طائف سے سیدنا عمر نے فرمایا اگر تم اس شہر کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں خوب سزا دیتا۔ تم رسول اللہ کی مسجد میں اپنی آوازیں بلند کرتے ہو ؟ 

(بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب رفع الصوت فی المسجد)

حق دار


 

استغفار


 

پورا بدلہ


 

مال غنیمت



آمــــیــن


 

وقت

 


تــوبــہ


 

Saturday, December 9, 2023

نعمت

 اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنی دی ہوئی نعمتیں گناہوں سے پہلے نہیں چھینتا۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے «إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ» [ 13-الرعد: 11 ] ‏‏‏‏ ” اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی ان باتوں کو نہ بدل دیں جو ان کے دلوں میں ہیں۔ جب وہ کسی قوم کی باتوں کی وجہ سے انہیں برائی پہنچانا چاہتا ہے تو اس کے ارادے کوئی بدل نہیں سکتا۔ نہ اس کے پاس کوئی حمایتی کھڑا ہو سکتا ہے۔“



پس پڑھو


 

تدبیر


 

Wednesday, December 6, 2023

بےشک


 

دنیا و آخرت کی سعادت مندی


تقویٰ کا مطلب ہے، اوامر الٰہی کی مخالفت اور اس کی مناہی کے ارتکاب سے بچنا اور فرقان کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں مثلاً ایسی چیز جس سے حق و باطل کے درمیان فرق کیا جا سکے۔ مطلب یہ ہے کہ تقویٰ کی بدولت دل مضبوط، بصیرت تیزتر اور ہدایت کا راستہ واضح تر ہوجاتا ہے، جس سے انسان کو ہر ایسے موقعے پر، جب عام انسان شک و شبہ کی وادیوں میں بھٹک رہے ہوں، صراط مستقیم کی توفیق مل جاتی ہے۔ علاوہ ازیں فتح اور نصرت اور نجات و مخرج بھی اس کے معنی کئے گئے ہیں۔ اور سارے ہی مراد ہوسکتے ہیں، کیونکہ تقویٰ سے یقینا یہ سارے ہی فوائد حاصل ہوتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ کفر، مغفرت گناہ اور فضل عظیم بھی حاصل ہوتا ہے۔

 تقوی کی یہ خاصیت ہے کہ وہ انسان کو ایسی سمجھ عطا کردیتا ہے جو حق اور ناحق میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور گناہ کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ انسان کی عقل خراب کردیتا ہے جس سے وہ اچھے کو برا اور برے کو اچھا سمجھنے لگتا ہے۔

” اے مومنو! اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو تو اللہ تم کو دین اور دنیا میں نجات دے گا۔“

 «فُرۡقَانً» 

سے مراد نجات ہے دنیوی بھی اور اخروی بھی اور فتح و نصرت غلبہ و امتیاز بھی مراد ہے جس سے حق و باطل میں تمیز ہو جائے۔ بات یہی ہے کہ جو اللہ کی فرمانبرداری کرے، نافرمانی سے بچے اللہ اس کی مدد کرتا ہے۔ جو حق و باطل میں تمیز کر لیتا ہے، دنیاو آخرت کی سعادت مندی حاصل کر لیتا ہے اس کے گناہ مٹ جاتے ہیں لوگوں سے پوشیدہ کروئے جات یہیں اور اللہ کی طرف سے اجر و ثواب کا وہ کامل مستحق ٹھہر جاتا ہے۔

جیسے فرمان عالی شان ہے «‏‏‏‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ» 

[ 57-الحدید: 28 ] ‏‏‏‏ 

 ‏‏‏‏ یعنی ” اے مسلمانو! اللہ کا ڈر دلوں میں رکھو۔ اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دوہرے حصے دے گا اور تمہارے لیے ایک نور مہیا کر دے گا جس کے ساتھ تم چلتے پھرتے رہو گے اور تمہیں بخش بھی دے گا، اللہ غفورو رحیم ہے۔“

اگر تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تقاضے پورے کرتے رہو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور نجات عطا فرمائے گا اور تمہارے تمام صغیرہ گناہوں کو معاف فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مغفرت اور جنت کے ذریعے بڑا فضل فرمانے والے ہیں۔



Tuesday, December 5, 2023

ناشکری


 

مال و اولاد فتنہ


آیت ٢٨ (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌلا) فتنہ کے معنی آزمائش اور اس کسوٹ کے ہیں جس پر کسی کو پرکھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے مال اور اولاد انسان کے لیے بہت بڑی آزمائشیں ہیں۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ” تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تمہارے امتحان کا باعث ہیں “۔ یہ دیکھیں آیا اللہ کا شکر کرتے ہو اور اس کی اطاعت کرتے ہو؟ یا ان میں مشغول ہو کر، ان کی محبت میں پھنس کر اللہ کی باتوں اور اس کی اطاعت سے ہٹ جاتے ہو؟ اسی طرح ہر خیرو شر سے اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ «‏‏‏‏إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ» [ 64-التغابن: 15 ] ‏‏‏‏
یعنی ” تمہارا مال اور تمہاری اولاد تو آزمائش ہے “، مسلمانو مال و اولاد کے چکر میں اللہ کی یاد نہ بھول جانا۔ ایسا کرنے والے نقصان پانے والے ہیں
اور آیت میں ہے کہ «‏‏‏‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ» 
[ 64-التغابن: 14 ] ‏‏‏‏ ” تمہاری بعض بیویاں اور بعض اولادیں تمہاری دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہنا۔ سمجھ لو کہ اللہ کے پاس اجر یہاں کے مال و اولاد سے بہت بہتر ہیں اور بہت بڑے ہیں کیونکہ ان میں سے بعض تو دشمن ہی ہوتے ہیں اور اکثر بینفع ہوتے ہیں۔“
صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تین چیزیں جس میں ہوں اس نے ایمان کی مٹھاس چکھ لی [1] ‏‏‏‏ جسے اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ پیارا ہو، [2] ‏‏‏‏ جو محض اللہ کے لیے دوستی رکھتا ہو اور [3] ‏‏‏‏ جسے آگ میں جل جانے سے بھی زیادہ برا ایمان کے بعد کفر کرنامعلوم ہوتا ہو۔
● صحيح مسلم:165ـــ صحيح البخاري:6941
بلکہ یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بھی اولاد و مال اور نفس کی محبت پر مقدم ہے جیسے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی باایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے نفس سے اور اہل سے اور مال سے اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔"(صحیح  بخاری) ۔ 
مال اور اولاد کی محبت تو انسان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اور معقول حد تک ہو تو بری بھی نہیں ہے، لیکن آزمائش یہ ہے کہ یہ محبت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پرتو آمادہ نہیں کررہی ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کے ساتھ یہ محبت ہوگی تونہ صرف جائز بلکہ باعث ثواب ہے ؛ لیکن اگر وہ نافرمانی تک لے جائے توایک وبال ہے اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کی اس سے حفاظت فرمائیں.آمین۔

خزاں


 

آمِــــــــين يَــارَبَّ العَالَمِــــــينَ


 

خیانت


فَلْیُؤَدِّ الَّذِیْ اؤْتُمِنَ أَمَانَتَہُ وَلْیَتَّقِ اللہَ رَبَّہ (بقرة: ۲۸۳)

ترجمہ: ”تو جو امین بنایا گیا ا س کو چاہیے کہ اپنی امانت ادا کرے اورچاہیے کہ اپنے پروردگار اللہ سے ڈرے “۔

بخاری و مسلم میں حاطب بن ابو بلتعہ رضی اللہ عنہ کا قصہ ہے کہ فتح مکہ والے سال انہوں نے قریش کو خط بھیج دیا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے سے انہیں مطلع کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی ان کے پیچھے دوڑائے اور خط پکڑا گیا۔ حاطب رضی اللہ عنہ نے اپنے قصور کا اقرار کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی گردن مارنے کی اجازت چاہی کہ اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں سے خیانت کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو یہ بدری صحابی ہے۔ تم نہیں جانتے بدری کی طرف اللہ تعالیٰ نے بذات خود فرما دیا ہے جو چاہو تم کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔ [صحیح بخاری:3007] ‏‏‏‏

میں کہتا ہوں کسی خاص واقعہ کے بارے میں اترنے کے باوجود الفاظ کی عمومیت اپنے حکم عموم پر ہی رہے گی یہی جمہور علماء کا قول ہے۔ خیانت عام ہے چھوٹے بڑے لازم متعدی سب گناہ خیانت میں داخل ہیں۔ اپنی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو یعنی فرض کو  ناقص نہ کرو، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نہ چھوڑو، اس کی نافرمانی نہ کرو۔



Friday, December 1, 2023

صَلَّی اللہ عَلی حَبِیْبِهٖ مُحَمَّــــدٍ وَّآلِـهٖ وَسَلَّم


 

اللہ سبحان و تعالیٰ


 

اے لوگو

 اللہ کی نگاہ میں بدترین مخلوق 

اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو اپنی اور اپنے رسول کی فرمانبرداری کا حکم دیتا ہے اور مخالفت سے اور کافروں جیسا ہونے سے منع فرماتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ «لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ» ” اطاعت کو نہ چھوڑو، تابع داری سے منہ نہ موڑو۔ جن کاموں سے اللہ اور اس کا رسول روک دے رک جایا کرو۔ “
«وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ» ‏‏‏‏ ” سن کر ان سنی نہ کر دیا کرو، مشرکوں کی طرح نہ بن جاؤ کہ سنا نہیں اور کہدیا کہ سن لیا، نہ منافقوں کی طرح بنو کہ بظاہر ماننے والا ظاہر کر دیا اور درحقیقت یہ بات نہیں۔“ بدترین مخلوق جانوروں، کیڑے مکوڑوں سے بھی برے اللہ کے نزدیک ایسے ہی لوگ ہیں جو حق باتوں سے اپنے کان بہرے کر لیں اور حق کے سمجھنے سے گونگے بن جائیں، بےعقلی سے کام لیں۔ اس لیے کہ تمام جانور بھی اللہ قادر کل کے زیر فرمان ہیں جو جس کام کیلئے بنایا گیا ہے اس میں مشغول ہے مگر یہ ہیں کہ پیدا کئے گئے عبادت کے لیے لیکن کفر کرتے ہیں۔
چنانچہ اور آیت میں انہیں جانوروں سے تشبیہ دی گئی۔ فرمان ہے آیت «وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ» [ 2-البقرة: 171 ] ‏‏‏‏، یعنی ” کافروں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی انہیں آواز دے تو سوائے پکارا اور ندا کے کچھ نہ سنیں۔ “
اور آیت میں ہے کہ «أُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ» [ 7-الأعراف: 179 ] ‏‏‏‏، یعنی ” یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بہکے ہوئے اور غافل۔“
ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد اس سے بنا عبدالدار کے قریشی ہیں۔ [صحیح بخاری:4646] ‏‏‏‏
محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد اس سے منافق ہیں۔ بات یہ ہے کہ مشرک منافق دونوں ہی مراد ہیں دونوں ہی مراد ہیں دونوں میں صحیح فہم اور سلامتی والی عقل نہیں ہوتی نہ ہی عمل صالح کی انہیں توفیق ہوتی ہے۔ اگر ان میں بھلائی ہوتی تو اللہ انہیں سنا دیتا لیکن نہ ان میں بھلائی نہ توفیق الہٰ۔ اللہ جل شانہُ کو علم ہے کہ انہیں سنایا بھی سمجھایا بھی تو بھی یہ اپنی سرکشی سے باز نہیں آئیں گے بلکہ اور اکڑ کر بھاگ جائیں گے۔

مـدد


 

آمــیـن


 

خــوف


 

سکون


 

خالص توبہ

 سلف فرماتے ہیں توبہ خالص یہ ہے کہ گناہ کو اس وقت چھوڑ دے، جو ہو چکا ہے اس پر نادم ہو اور آئندہ کے لیے نہ کرنے کا پختہ عزم ہو، اور اگر گناہ میں کسی انسان کا حق ہے تو چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ حق باقاعدہ ادا کر دے۔‏‏‏‏

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: نادم ہونا بھی توبہ کرنا ہے ۔ [مسند احمد:33/1:صحیح] ‏‏‏‏
حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں  «توبتہ النصوح» یہ ہے کہ جیسے گناہ کی محبت تھی ویسا ہی بغض دل میں بیٹھ جائے اور جب وہ گناہ یاد آئے اس سے استغفار ہو، جب کوئی شخص توبہ کرنے پر پختگی کر لیتا ہے اور اپنی توبہ پر جما رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام اگلی خطائیں مٹا دیتا ہے، جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ اسلام لانے سے پہلے کی تمام برائیاں اسلام فنا کر دیتا ہے اور توبہ سے پہلے کی تمام خطائیں توبہ سوخت کر دیتی ہے ۔ [صحیح مسلم:121] ‏‏‏‏
اب رہی یہ بات کہ «توبتہ النصوح» میں یہ شرط بھی ہے کہ توبہ کرنے والا پھر مرتے دم تک یہ گناہ نہ کرے۔ جیسے کہ احادیث و آثار ابھی بیان ہوئے جن میں ہے کہ پھر کبھی نہ کرے، یا صرف اس کا عزم راسخ کافی ہے کہ اسے اب کبھی نہ کروں گا گو پھر بہ متضائے بشریت بھولے چوکے ہو جائے، جیسے کہ ابھی حدیث گزری کہ توبہ اپنے سے پہلے گناہوں کو بالکل مٹا دیتی ہے، تو تنہا توبہ کے ساتھ ہی گناہ معاف ہو جاتے ہیں یا پھر مرتے دم تک اس کام کا نہ ہونا گناہ کی معافی کی شرط کے طور پر ہے؟

پس پہلی بات کی دلیل تو یہ صحیح حدیث ہے کہ جو شخص اسلام میں نیکیاں کرے وہ اپنی جاہلیت کی برائیوں پر پکڑا نہ جائے گا اور جو اسلام لا کر بھی برائیوں میں مبتلا رہے وہ اسلام اور جاہلیت کی دونوں برائیوں میں پکڑا جائے گا ۔ [صحیح بخاری:6921]

انسانیت


 

صبر


 

آخرت


 

مـوت


 

بد دعاء اور انسان


یعنی انسان کبھی کبھی دلگیر اور ناامید ہو کر اپنی سخت غلطی سے خود اپنے لیے برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے۔ کبھی اپنے مال واولاد کے لئے بد دعاء کرنے لگتا ہے کبھی موت کی ، کبھی ہلاکت کی ، کبھی بربادی اور لعنت کی ۔
لیکن اس کا اللہ اس پر خود اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ادھر وہ دعاء کرے ادھر وہ قبول فرما لے تو ابھی ہلاک ہو جائے ۔
حدیث میں بھی ہے کہ ‏‏‏‏ اپنی جان و مال کے لیے بد دعاء نہ کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت میں کوئی ایسا بد کلمہ زبان سے نکل جائے۔
[صحیح مسلم:3009] ‏‏‏‏
اس کی وجہ صرف انسان کی اضطرابی حالت اور اس کی جلد بازی ہے۔
یہ ہے ہی جلد باز۔ سیدنا سلمان فارسی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم نے اس موقعہ پر آدم علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ ابھی پیروں تلے روح نہیں پہنچی تھی کہ آپ نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا روح سر کی طرف سے آرہی تھی ناک تک پہنچی تو چھینک آئی آپ نے کہا «الحمدللہ» ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا «‏‏‏‏يَرْحَمُكَ اللَّهُ يَا آدَمُ» اے آدم تجھ پر تیرا رب رحم کرے۔
جب آنکھوں تک پہنچی تو آنکھیں کھول کر دیکھنے لگے۔ جب اور نیچے کے اعضاء میں پہنچی تو خوشی سے اپنے آپ کو دیکھنے لگے۔ ابھی پیروں تک نہیں پہنچی تو چلنے کا ارادہ کیا لیکن نہ چل سکے تو دعا کرنے لگے کہ اے اللہ رات سے پہلے روح آجائے۔
تفسیر آیت/آیات، 11
سورۃ الإسراء/بني اسرائيل


مــحبت


 

انسان


 

ســکون