معبود ان باطلہ نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں نہ عبادت گزاروں کی مدد کرسکتے ہیں اوپر کی آیت میں اولاد کے سلسلہ میں شرک اختیار کرنے کا ذکر تھا ان آیات میں بھی مشرکین کو تنبیہ فرمائی ہے اور شرک اختیار کرنے میں جو انہوں نے حماقت کی ہے اسے بیان فرمایا ہے، اول تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے اسی نے سب کچھ پیدا فرمایا جس نے سب کچھ پیدا فرمایا وہی عبادت کے لائق ہے جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے اور وہ خود اپنے خالق جل مجدہ کی مخلوق ہیں وہ کیسے عبادت کے مستحق ہوگئے ؟ مشرکین کا یہ طریقہ ہے کہ جب غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو یہ سمجھ کر کرتے ہیں کہ یہ آڑے وقت میں ہماری مدد کریں گے یہ بھی حماقت کی بات ہے جن کو اللہ کا شریک بناتے ہیں وہ ان شرک کرنے والوں کی کچھ مدد نہیں کرسکتے، ان کی مدد کرنا تو در کنار وہ تو اپنی مدد کرنے سے عاجز ہیں اگر کوئی شخص انہیں توڑ دے پھوڑ دے تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ انہوں نے جو مورتیاں بنا رکھی ہیں وہ بےجان صورتیں ہیں نہ اپنے پاؤں سے چل سکتے ہیں نہ اپنے ہاتھوں سے پکڑ سکتے ہیں نہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور نہ اپنے کانوں سے سن سکتے ہیں ان عاجزوں کو اللہ کا شریک بنانا اور ان سے مدد کی امید کرنا سراپا حماقت اور بےعقلی ہے ان کو پکارو تو بات نہ سنیں اور ہدایت کا راستہ بتاؤ تو اسے اختیار نہ کریں اور حال ان کا یہ ہے کہ وہ بظاہر اپنی مصنوعی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور حقیقت میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا کیونکہ ان کی آنکھیں اصلی نہیں ہیں جن سے وہ دیکھیں، اور کان اصلی نہیں ہیں جن سے وہ سنیں، ان بتوں کو خود ہی تراشتے اور خود ہی اٹھاتے اور رکھتے ہیں اور انہیں پوجتے ہیں۔ یہ حماقت اور شقاوت ہے۔
وَتَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ ۔۔ : یعنی مشرکین اپنے بتوں کی صورتیں بناتے وقت ان کی آنکھیں ایسی بناتے کہ ان کی طرف دیکھنے والے کو ایسا معلوم ہو کہ وہ سچ مچ دیکھ رہے ہیں، مگر جب وہ بےجان بت ہیں تو دیکھیں گے کیسے ؟ (ابن جریر) یا آیت کے معنی یہ ہیں کہ مشرکین بظاہر تو آنکھیں رکھتے ہیں مگر بصیرت کے اندھے ہیں، اس لیے کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ (ابن کثیر)
جن جن کو اللہ کے سوا تم پکارتے ہو، وہ تمہاری امداد نہیں کر سکتے اور نہ وہ خود اپنا ہی کوئی نفع کر سکتے ہیں۔ یہ تو سن ہی نہیں سکتے، تجھے تو یہ آنکھوں والے دکھائی دیتے ہیں، لیکن دراصل ان کی اصلی آنکھیں ہی نہیں کہ کسی کو دیکھ سکیں۔
No comments:
Post a Comment