Tuesday, December 31, 2024

آمـــیـن

صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم

ماہ و سال

31 دســمبر

قیامت کے دن

اللہ کے سوا

  اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے الوہیت کے کئی معیار بیان فرمائے ہیں اور مشرکوں کو عام دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے معبودوں کو ان معیاروں پر جانچ کر دیکھیں اور پھر بتلائیں کہ آیا ان کے معبودوں میں الوہیت کا کوئی شائبہ تک بھی پایا جاتا ہے مثلاً- (١) جو ہستی کوئی چیز پیدا نہ کرسکے یا کسی بھی چیز کی خالق نہ ہو۔ وہ معبود نہیں ہوسکتی۔- (٢) جو چیز خود پیدا شدہ ہو یا مخلوق ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ جو چیز پیدا ہوئی ہے وہ فنا بھی ضرور ہوگی۔ اور فنا ہونے والی چیز الٰہ نہیں ہوسکتی۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ مشرکوں کے معبود خواہ وہ بت ہوں جنہیں انہوں نے خود ہی گھڑ رکھا ہے یا فرشتے ہوں یا کوئی اور چیز مثلاً : سورج، چاند، تارے، شجر، حجر ہوں۔ یہ سب چیزیں اللہ کی خلوق ہیں۔ لہذا ان میں کوئی چیز بھی الوہیت کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔- (٣) جو ہستی کسی دوسرے کو فائدہ یا نقصان نہ پہنچا سکتی ہو بالفاظ دیگر وہ حاجت روا یا مشکل کشا نہ ہو۔ وہ الٰہ نہیں ہوسکتی۔ یہی وہ صفات ہیں جنہیں مشرکین اللہ کے سوا بعض دوسری ہستیوں میں) خواہ وہ جاندار ہو یا بےجان، زندہ ہوں یا مرچکی ہوں ( تسلیم کرتے ہیں اور شرک کی یہی قسم سب سے زیادہ عام ہے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ :- (٤) جو چیز اپنے ہی نفع و نقصان کی بھی مالک نہ ہو، وہ دوسرے کسی کی حاجت روا یا مشکل کشا نہیں ہوسکتی۔ اور یہ معیار بھی ایسا معیار ہے جس کے مطابق اللہ کے سوا تمام تر معبود باطل قرار پاتے ہیں۔ پتھر کے معبودوں کو حضرت ابراہیم نے تور پھوڑ ڈالا۔ تو وہ ان کا بال بیکا نہ کرسکے۔ رہے بزرگان دین) خواہ وہ پیغمبر ہو یا ولی، زندہ ہو یا فوت ہوچکے ہوں ( سب کو ان کی زندگی میں بیشمار تکلیفیں پہنچتی رہیں لیکن وہ اپنی بھی تکلیفیں اور بیماریاں خود رفع نہ کرسکے تو دوسروں کی کیا کرتے یا کیا کریں گے۔ اس لئے بس وہ اللہ سے دعا ہی کرتے رہے۔ رہے شمس و قمر، تارے اور فرشتے تو یہ سب ایسی مخلوق ہیں۔ جنہیں اپنا اختیار کچھ بھی نہیں ہے۔ اللہ نے انھیں جس کام پر لگا دیا ہے اس کے سوا وہ کوئی دوسرا کام کر ہی نہیں سکتے۔ لہذا وہ بھی الوہیت کے معیار پر پورے نہیں اتر سکتے۔- (٥) الوہیت کا پانچواں معیار یہ ہے کہ وہ ہستی کسی زندہ چیز کو مار بھی سکتی ہو اور مردہ چیز کو زندہ بھی کرسکتی ہو۔ اللہ کی یہ شان ہے کہ وہ ہر وقت زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ چیزیں پیدا کر رہا ہے۔ اور دوسرے معبودوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے چیلنج کے طور پر فرمایا کہ وہ ایک حقیر سی مخلوق مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے جبکہ ان کی عاجزی کا یہ عالم ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ سب مل کر اس سے اپنے سلب شدہ چز چھڑا بھی نہیں سکتے اور مردوں کو زندہ کرکے اٹھا کھڑا کرنا تو اور بھی بڑی بات ہے۔- اس مقام پر الوہیت کے یہی معیار بیان کئے گئے ہیں جبکہ بعض دوسرے مقامات پر اور بھی کئی معیار مذکور ہیں : مثلاً جو خود محتاج ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا۔ جو بےجان ہوں الٰہ نہیں ہوسکتا، جو کھانا کھاتا ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا، جو نہ سن سکتا ہو نہ دیکھ سکتا ہو یا جواب نہ دے سکتا ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا۔

مشرکوں کی حالت مشرکوں کی جہالت بیان ہو رہی ہے کہ وہ خالق ، مالک ، قادر ، مختار ، بادشاہ کو چھوڑ کر ان کی عبادتیں کرتے ہیں جو ایک مچھر کا پر بھی نہیں بنا سکتے بلکہ وہ خود اللہ کے بنائے ہوئے اور اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو بھی کسی نفع نقصان کے پہنچانے کے مالک نہیں چہ جائیکہ دوسرے کا بھلا کریں یا دوسرے کا نقصان کریں ۔ یا دوسری کوئی بات کر سکیں وہ اپنی موت زیست کا یا دوبارہ جی اٹھنے کا بھی اختیار نہیں رکھتے ۔ پھر اپنی عبادت کرنے والوں کی ان چیزوں کے مالک وہ کیسے ہوجائیں گے؟ بات یہی ہے کہ ان تمام کاموں کا مالک اللہ ہی ہے ، وہی جلاتا اور مارتا ہے ، وہی اپنی تمام مخلوق کو قیامت کے دن نئے سرے سے پیدا کرے گا ۔ اس پر یہ کام مشکل نہیں ایک کا پیدا کرنا اور سب کو پیدا کرنا ، ایک کو موت کے بعد زندہ کرنا اور سب کو کرنا اس پر یکساں اور برابر ہے ۔ ایک آنکھ جھپکانے میں اس کا پورا ہو جاتا ہے صرف ایک آواز کے ساتھ تمام مری ہوئی مخلوق زندہ ہو کر اس کے سامنے ایک چٹیل میدان میں کھڑی ہوجائے گی ۔ اور آیت میں فرمایا ہے صرف ایک دفعہ کی ایک عبادت ہے ، اس کا چاہا ہوتا ہے اس کے چاہے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ وہ ماں باپ سے ، لڑکی لڑکوں سے عدیل ، وزیرونظیر سے ، شریک وسہیم سب سے پاک ہے ۔ وہ احد ہے ، صمد ہے ، ولم یلدولم یولد ہے ، اس کا کفو کوئی نہیں ۔

اک کام

کائنات کا مالک صرف اللہ

صدقہ

قیامت کے منکر

 آیت ٧  (اِنَّ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَآءَ نَا)” بیشک وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کے امیدوار نہیں ہیں “- یہاں پر یہ نکتہ نوٹ کریں کہ یہ الفاظ اس سورت میں باربار دہرائے جائیں گے۔ اصل میں یہ ایسی انسانی سوچ اور نفسیاتی کیفیت کی طرف اشارہ ہے جس کے مطابق انسانی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔ انسان کو غور کرنا چاہیے کہ یہ انسانی زندگی جو ہم اس دنیا میں گزار رہے ہیں اس کی اصل حقیقت کیا ہے اسے محاورۃً ” چار دن کی زندگی “ قرار دیا جاتا ہے۔ بہادر شاہ ظفر ؔ نے بھی کہا ہے ؂- عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن - دو آرزو میں کٹ گئے ‘ دو انتظار میں - اگر انسان اس دنیا میں طویل طبعی عمر بھی پائے تو اس کا ایک حصہ بچپن کی ناسمجھی اور کھیل کود میں ضائع ہوجاتا ہے۔ شعور اور جوانی کی عمر کا تھوڑا سا وقفہ اس کے لیے کار آمد ہوتا ہے۔ اس کے بعد جلد ہی بڑھاپا اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے (اِنَّ الَّـذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَـآءَنَا) (النحل : ٧٠) کی جیتی جاگتی تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ تو کیا انسانی زندگی کی حقیقت بس یہی ہے ؟ اور کیا اتنی سی زندگی کے لیے ہی انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب دیا جاتا ہے ؟ انسان غور کرے تو اس پر یہ حقیقت واضح ہوگی کہ انسانی زندگی محض ہمارے سامنے کے چند ماہ وسال کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے کا نام ہے۔ علامہ اقبالؔ کے بقول : ؂- تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ - جاوداں ‘ پیہم دواں ‘ ہر دم جواں ہے زندگی - اوراقبالؔ ہی نے اس سلسلے میں انسانی ناسمجھی اور کم ظرفی کی طرف ان الفاظ میں توجہ دلائی ہے : ؂- تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا - ورنہ گلشن میں علاج تنگئ داماں بھی ہے - اس لامتناہی سلسلۂ زندگی میں سے ایک انتہائی مختصر اور عارضی وقفہ یہ دنیوی زندگی ہے جو اللہ نے انسان کو آزمانے اور جانچنے کے لیے عطا کی ہے : (اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ) (الملک : ٢) ۔ جبکہ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور وہ بہت طویل ہے۔ جیسے سورة العنکبوت میں فرمایا : (وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ) ” اور یقیناً آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے ‘ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا “ مگر وہ لوگ جن کا ذہنی افق تنگ اور سوچ محدود ہے ‘ وہ اسی عارضی اور مختصر وقفۂ زندگی کو اصل زندگی سمجھ کر اس کی رعنائیوں پر فریفتہ اور اس کی رنگینیوں میں گم رہتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال ؔ :- کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے - مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق - اصل اور دائمی زندگی کی عظمت اور حقیقت ایسے لوگوں کی نظروں سے بالکل اوجھل ہوچکی ہے۔ - (وَرَضُوْا بالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَاَ نُّوْا بِہَا وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ ) ” اور وہ دنیا کی زندگی پر ہی راضی اور اسی پر مطمئن ہیں ‘ اور جو ہماری آیات سے غافل ہیں۔ “- انسانوں کے اندر اور باہر اللہ کی بیشمار نشانیاں موجود ہیں اور ان کی فطرت انہیں بار بار دعوت فکر بھی دیتی ہے : ؂- کھول آنکھ ‘ زمین دیکھ ‘ فلک دیکھ ‘ فضا دیکھ - مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرادیکھ - مگر وہ لوگ شہوات نفسانی کے چکروں میں اس حدتک غلطاں و پیچاں ہیں کہ انہیں آنکھ کھول کر انفس و آفاق میں بکھری ہوئی ان لاتعداد آیات الٰہی کو ایک نظر دیکھنے کی فرصت ہے نہ توفیق۔ 

قـــرآن

اللہ تعالیٰ ابن رحمت کا بیان فرماتا ہے تاکہ لوگوں پر اس کی بزرگی عیاں ہوجائے کہ اس نے اس پاک کلام کو اپنے بندے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے ۔ سورۃ کہف کے شروع میں بھی اپنی حمد اسی انداز سے بیان کی ہے یہاں اپنی ذات کا بابرکت ہونا بیان فرمایا اور یہی وصف بیان کیا ۔ یہاں لفظ نزل فرمایا جس سے باربار بکثرت اترنا ثابت ہوتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِهٖ )  النسآء:136 ) پس پہلی کتابوں کو لفظ انزل سے اور اس آخر کتاب کو لفظ نزل سے تعبیر فرمانا ہے اسی لئے ہے کہ پہلی کتابیں ایک ساتھ اترتی رہیں اور قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کر کے حسب ضرورت اترتا رہا کبھی کچھ آیتیں ، کبھی کچھ سورتیں کبھی کچھ احکام ۔ اس میں ایک بڑی حکمت یہ بھی تھی کہ لوگوں کو اس پر عمل کرنا مشکل نہ ہو اور خوب یاد ہو جائے اور مان لینے کے لئے دل کھل جائے ۔ جیسے کہ اسی سورت میں فرمایا ہے کہ کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ قرآن کریم اس نبی پر ایک ساتھ کیوں نہ اترا ؟ جواب دیا گیا ہے کہ اس طرح اس لئے اترا کہ اس کے ساتھ تیری دل جمعی رہے اور ہم نے ٹھہرا ٹھہرا کر نازل فرمایا ۔ یہ جو بھی بات بنائیں گے ہم اس کا صحیح اور جچا تلا جواب دیں جو خوب مفصل ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اس آیت میں اس کا نام فرقان رکھا ۔ اس لئے کہ یہ حق وباطل میں ہدایت وگمراہی میں فرق کرنے والا ہے اس سے بھلائی برائی میں حلال حرام میں تمیز ہوتی ہے ۔ قرآن کریم کی یہ پاک صفت بیان فرما کر جس پر قرآن اترا ان کی ایک پاک صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ خاص اس کی عبادت میں لگے رہنے والے ہیں اس کے مخلص بندے ہیں ۔ یہ وصف سب سے اعلیٰ وصف ہے اسی لئے بڑی بڑی نعمتوں کے بیان کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی وصف بیان فرمایا گیا ہے ۔ جیسے معراج کے موقعہ پر فرمایا آیت ( سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ) 17- الإسراء:1 ) اور جیسے اپنی خاص عبادت نماز کے موقعہ پر فرمایا آیت ( وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا ) 72- الجن:19 ) اور جب بندہ اللہ یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرنے کھڑے ہوتے ہیں یہی وصف قرآن کریم کے اترنے اور آپ کے پاس بزرگ فرشتے کے آنے کے اکرام کے بیان کرنے کے موقعہ پر بیان فرمایا ۔ پھر ارشاد ہوا کہ اس پاک کتاب کا آپ کی طرف اترنا اس لئے ہے کہ آپ تمام جہان کے لئے آگاہ کرنے والے بن جائیں ، ایسی کتاب جو سراسر حکمت وہدایت والی ہے جو مفصل مبین اور محکم ہے جس کے آس پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا جو حکیم وحمید اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی ہے ۔ آپ اس کی تبلیغ دنیا بھر میں کر دیں ہر سرخ وسفید کو ہر دور ونزدیک والے کو اللہ کے عذابوں سے ڈرادیں ، جو بھی آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر ہے اس کی طرف آپ کی رسالت ہے ۔ جیسے کہ خود حضورعلیہ السلام کا فرمان ہے میں تمام سرخ وسفید انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں اور فرمان ہے مجھے پانچ باتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔ خود قرآن میں ہے آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ) 7- الاعراف:158 ) اے نبی اعلان کر دو کہ اے دنیا کے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں ۔ پھر فرمایا کہ مجھے رسول بنا کر بھیجنے والا مجھ پر یہ پاک کتاب اتارنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان وزمین کا تنہا مالک ہے جو جس کام کو کرنا چاہے اسے کہہ دیتا ہے کہ ہوجاوہ اسی وقت ہو جاتا ہے ۔ وہی مارتا اور جلاتا ہے اس کی کوئی اولاد نہیں نہ اس کا کوئی شریک ہے ہر چیز اس کی مخلوق اور اس کی زیر پرورش ہے ۔ سب کا خالق ، مالک ، رازق ، معبود اور رب وہی ہے ۔ ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے والا اور تدبیر کرنے والا وہی ہے ۔

آئیں آسانیاں بانٹیں

اللہ پر یقین

رات اور دن

 يُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۔۔ : یہ اس بات کی تیسری دلیل ہے کہ اس کائنات کا مالک و مختار اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے اور اس کی ہدایت کی روشنی زمین و آسمان میں ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے، چناچہ فرمایا، اللہ تعالیٰ رات اور دن کو بدلتا رہتا ہے، نہ ہمیشہ دن رہتا ہے نہ رات۔ دیکھیے قصص (٧١ تا ٧٣) پھر کبھی رات چھوٹی ہوتی ہے کبھی دن۔ دیکھیے لقمان (٢٩) واضح رہے کہ زمین پر زندہ رہنے کے جتنے اسباب موجود ہیں رات دن کے اسی الٹ پھیر کی بدولت ہیں، اگر ہمیشہ رات رہتی یا ہمیشہ دن رہتا تو کوئی چیز پیدا نہ ہوسکتی، یہ سب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے۔ رات دن کو یا اس نظام کو برا بھلا کہنے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ کو برا بھلا کہتا ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( قَال اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی یُؤْذِیْنِي ابْنُ آدَمَ ، یَقُوْلُ یَا خَیْبَۃَ الدَّھْرِ فَلَا یَقُوْلَنَّ أَحَدُکُمْ یَا خَیْبَۃَ الدَّھْرِ فَإِنِّيْ أَنَا الدَّھْرُ ، أُقَلِّبُ لَیْلَہُ وَ نَھَارَہُ ، فَإِذَا شِءْتُ قَبَضْتُھُمَا ) [ مسلم، الألفاظ من الأدب وغیرھا، باب النہي عن سب الدھر : ٣؍٢٢٤٦ ] ” اللہ عز و جل فرماتا ہے، ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، کہتا ہے، ہائے زمانے کی کم بختی سو تم میں سے کوئی ہرگز یوں نہ کہے، ہائے زمانے کی کم بختی اس لیے کہ میں ہی زمانہ ہوں، میں رات دن کو بدل بدل کر لاتا ہوں اور میں جب چاہوں گا دونوں کو سمیٹ لوں گا۔ “

 رات اور دن کا باری باری آنا بھی اللہ کی معرفت کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ جسے اللہ نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیاروں کی گردش کا ایسا مربوط نظام بنادیا ہے جس سے دن اور رات باری باری آتے رہتے ہیں۔ کسی مقام پر ایک ہی وقت راتیں بڑھ رہی ہیں تو دوسرے مقام پر اسی وقت چھوٹی ہو رہی ہیں۔ پھر اسی نظام سے ہر مقام پر موسموں میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ جو مختلف قسم کی اجناس اور نباتات کے پکنے میں ممدو ثابت ہوتی ہے۔ فصلوں کے پکنے اور موسم میں ایک گہرا تعلق ہے غرضیکہ اللہ تعالیٰ کا یہ نظام اس قدر محیرالعقول اور کثیر الفوائد ہے کہ جتنا بھی اس میں غور کیا جائے اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا سکہ انسان کے دل میں بیٹھتا جاتا ہے۔- موجودہ نظریہ کے مطابق یہ سب نتائج زمین کی محودی گردش اور سورج کے گرد سالانہ گردش سے حاصل ہوتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر زمین جیسے عظیم الجثہ کرے کو آخر کس ہستی نے مجبور کیا ہے کہ وہ سورج کے گرد اپنے محور پر ساڑھے چھ ڈگری کا زاویہ بناتے ہوئے چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتی رہے اور ہمیشہ گھومتی رہے اور اس گردش میں سرمو بھی فرق نہ آنے دے ؟ پھر بروقت اس کڑی نگرانی بھی رکھے ہوئے ہے 

اچھے لوگ

صــبر

ایسے آدمی

  ان ہدایت یافتہ لوگوں کی صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ گھروں کے اندر بھی اللہ کی یاد میں مشغول رہتے ہیں اور گھروں سے باہر بھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں رہتے۔ اپنے کام کاج یا کاروبار کرتے وقت بھی اللہ کی یاد ان کے دلوں میں موجود رہتی ہے جو انھیں اللہ کی نافرمانی والے ہر کام سے باز رکھتی ہے۔ وہ صرف اس چند روزہ زندگی کے فائدوں کی ہی طلب گار نہیں ہوتے بلکہ ان کی نگاہ آخرت کی ابدی زندگی پر جمی رہتی ہے اور اللہ کے حضور وہ اپنے اعمال کی جواب دہی سے ڈرتے بھی رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ دن ہی اتنا سخت اور ہولناک ہوگا۔ جس میں ہر شخص کا دل بھی بےقرار ہوگا اور آنکھیں بھی بےقرار ہوں گی۔ اور ان ہدایت یافتہ لوگوں کا بھی یہ حال ہوگا۔ کہ کبھی وہ اللہ کی رحمت کی امید لگائے ہوں گے اور اللہ کے عذاب سے اور اس کی گرفت سے ڈرنے لگیں گے۔ یہی حال آنکھوں کا ہوگا کبھی وہ دائیں طرف دیکھیں گی اور کبھی بائیں طرف تاکہ یہ دیکھیں کس جانب ان کا نامہ اعمال ان کے حوالہ کیا جاتا ہے۔-وہ لوگ اس توقع پر یہ سارے کام کرتے ہیں کہ اللہ کے ہاں اپنے ان عملوں کا بہتر بدلہ ملے۔ جو یقیناً انھیں مل جائے گا۔ اللہ صرف ان کے اعمال کا بہتر بدلہ ہی نہ دے گا بلکہ اس کے علاوہ انھیں ایسی ایسی نعمتوں سے نوازے گا جو اس وقت ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آسکتیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جس شخص پر راضی اور خوش ہوجائے تو اللہ کے ہاں کس چیز کی کمی ہے جو اسے نہ دے گا۔

Sunday, December 22, 2024

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

حرام چیزوں پر نگاہ نہ ڈالو

 حکم ہوتا ہے کہ ” جن چیزوں کا دیکھنا میں نے حرام کر دیا ہے ان پر نگاہیں نہ ڈالو، حرام چیزوں سے آنکھیں نیچی کر لو “۔ اگر بالفرض نظر پڑ جائے تو بھی دوبارہ یا نظر بھر کر نہ دیکھو۔

صحیح مسلم میں ہے سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نگاہ پڑ جانے کی بابت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نگاہ فوراً ہٹا لو ۔ [صحیح مسلم:2159] ‏‏‏‏
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا راستوں پر بیٹھنے سے بچو ۔ لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کام کاج کے لیے وہ تو ضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو راستوں کا حق ادا کرتے رہو ۔ انہوں نے کہا وہ کیا؟ فرمایا: نیچی نگاہ رکھنا، کسی کو ایذاء نہ دینا، سلام کا جواب دینا، اچھی باتوں کی تعلیم کرنا، بری باتوں سے روکنا ۔ 
[صحیح بخاری:6229] ‏‏‏‏
صحیح بخاری میں ہے جو شخص زبان اور شرمگاہ کو اللہ کے فرمان کے ماتحت رکھے، میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔ [صحیح بخاری:6474] ‏‏‏‏
عبیدہ کا قول ہے کہ جس چیز کا نتیجہ نافرمانی رب ہو، وہ کبیرہ گناہ ہے چونکہ نگاہ پڑنے کے بعد دل میں فساد کھڑا ہوتا ہے، اس لیے شرمگاہ کو بچانے کے لیے نظریں نیچی رکھنے کا فرمان ہوا۔ نظر بھی ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ پس زنا سے بچنا بھی ضروری ہے اور نگاہ نیچی رکھنا بھی ضروری ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ابن آدم کے ذمے اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے جسے وہ لامحالہ پالے گا، آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے، کانوں کا زنا سننا ہے۔، ہاتھوں کا زنا تھامنا ہے، پیروں کا زنا چلنا ہے، دل خواہش تمنا اور آرزو کرتا ہے، پھر شرمگاہ تو سب کو سچا کر دیتی ہے یا سب کو جھوٹا بنا دیتی ہے ۔ [صحیح بخاری:6243] ‏‏‏‏
اکثر سلف لڑکوں کو گھورا گھاری سے بھی منع کرتے تھے۔ اکثر ائمہ صوفیہ نے اس بارے میں بہت کچھ سختی کی ہے۔ اہل علم کی جماعت نے اس کو مطلق حرام کہا ہے اور بعض نے اسے کبیرہ گناہ فرمایا ہے۔

ستر ہزار لوگ

رات اور دن

شرعی آداب

تکبر اور لغو

سارا سفر

اعضاء کی گواہی

 سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئے اور فرمانے لگے، جانتے ہو میں کیوں ہنسا؟ ہم نے کہا اللہ ہی جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ قیامت کے دن اپنے رب سے جو حجت بازی کرے گا اس پر یہ کہے گا کہ اللہ کیا تو نے مجھے ظلم سے نہیں روکا تھا؟ اللہ فرمائے گا ” ہاں “۔ تو یہ کہے گا، بس آج جو گواہ میں سچا مانوں، اسی کی شہادت میرے بارے میں معتبر مانی جائے۔ اور وہ گواہ سوا میرے اور کوئی نہیں۔ اللہ فرمائے گا، ” اچھا یونہی سہی تو ہی اپنا گواہ رہ “، اب منہ پر مہر لگ جائے گی اور اعضاء سے سوال ہوگا تو وہ سارے عقدے کھول دیں گے۔ اس وقت بندہ کہے گا، تم غارت ہو جاؤ، تمہیں بربادی آئے تمہاری طرف سے ہی تو میں لڑ جھگڑ رہا تھا ۔ 

[صحیح مسلم:2969] ‏‏‏‏

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے تھے اے ابن آدم تو خود اپنی بد اعمالیوں کا گواہ ہے، تیرے کل جسم کے اعضاء تیرے خلاف بولیں گے، ان کا خیال رکھ اللہ سے پوشیدگی اور ظاہری میں ڈرتا رہ۔ اس کے سامنے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، اندھیرا اس کے سامنے روشنی کی مانند ہے۔ چھپا ہوا اس کے سامنے کھلا ہوا ہے۔ اللہ کے ساتھ نیک گمانی کی حالت میں مرو۔ اللہ ہی کے ساتھ ہماری قوتیں ہیں۔‏‏‏‏
یہاں دین سے مراد حساب ہے۔ جمہور کی قرأت میں حق کا زبر ہے کیونکہ وہ دین کی صفت ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ نے «الْحَقَّ» پڑھا ہے کہ یہ لغت ہے لفظ اللہ کی۔ ابی بن کعب کے مصحف میں «يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ الْحَقُّ دِينَهُمْ» بعض سلف سے پڑھنا مروی ہے۔ ” اس وقت جان لیں گے کہ اللہ کے وعدے وعید حق ہیں۔ اس کا حساب عدل والا ہے ظلم سے دور ہے “۔

اللہ کے سپرد

دکھ

تتلی

بے شک

دولت مند افراد سے خطاب

ایمان والو

اللہ کا فضل اور رحمت

Thursday, December 12, 2024

مظاہر کائنات

 اللہ عزوجل کی عظمت و قدرت کے ثبوت مظاہر کائنات 

اس کی کمال قدرت، اس کی عظیم سلطنت کی نشانی یہ چمکیلا آفتاب ہے اور یہ روشن ماہتاب ہے۔ یہ اور ہی فن ہے اور وہ اور ہی کمال ہے۔ اس میں بڑا ہی فرق ہے۔ اس کی شعاعیں جگمگا دیں اور اس کی شعاعیں خود منور رہیں۔ دن کو آفتاب کی سلطنت رہتی ہے، رات کو ماہتاب کی جگمگاہٹ رہتی ہے، ان کی منزلیں اس نے مقرر کر رکھی ہیں۔
چاند شروع میں چھوٹا ہوتا ہے۔ چمک کم ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ بڑھتا ہے اور روشن بھی ہوتا ہے پھر اپنے کمال کو پہنچ کر گھٹنا شروع ہوتا ہے واپسی اگلی حالت پر آ جاتا ہے۔ ہر مہینے میں اس کا یہ ایک دور ختم ہوتا ہے نہ سورج چاند کو پکڑ لے، نہ چاند سورج کی راہ روکے، نہ دن رات پر سبقت کرے نہ رات دن سے آگے بڑھے۔ ہر ایک اپنی اپنی جگہ پابندی سے چل پھر رہا رہے۔ دور ختم کر رہا ہے۔
«وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَـهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالعُرجُونِ الْقَدِيمِ ـ لاَ الشَّمْسُ يَنبَغِى لَهَآ أَن تدْرِكَ القَمَرَ وَلاَ الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ» 
[36-يس:39،40] ‏‏‏‏ ” اور چاند کی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں “۔
دونوں کی گنتی سورج کی چال پر اور مہینوں کی گنتی چاند پر ہے۔ 
«وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَاناً» 
[6-الأنعام:96] ‏‏‏‏ ” اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے “۔ یہ مخلوق عبث نہیں بلکہ بحکمت ہے۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی چیزیں باطل پیدا شدہ نہیں، یہ خیال تو کافروں کا ہے، جن کا ٹھکانا دوزخ ہے۔
«وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالاٌّرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَـطِلاً ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ مِنَ النَّارِ» [38-ص:27] ‏‏‏‏ ” اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا یہ گمان تو کافروں کا ہے سو کافروں کے لیے خرابی ہے آگ کی “۔ ‏
” تم یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے تمہیں یونہی پیدا کر دیا ہے اور اب تم ہمارے قبضے سے باہر ہو، یاد رکھو میں اللہ ہوں، میں مالک ہوں، میں حق ہوں، میرے سوا کسی کی کچھ چلتی نہیں، عرش کریم بھی منجملہ مخلوق کے میری ادنیٰ مخلوق ہے “۔
«أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَـكُمْ عَبَثاً وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لاَ تُرْجَعُونَ ـ فَتَعَـلَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ» 
[23-المؤمنون:115،116] ‏‏‏‏ ” کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یونہی بے کار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔ ‏ اللہ تعالیٰ سچا بادشاہ ہے وہ بڑی بلندی والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی بزرگ عرش کا مالک ہے “۔
” حجتیں اور دلیلیں ہم کھول کھول کر بیان فرما رہے ہیں کہ اہل علم لوگ سمجھ لیں “۔
رات دن کے رد و بدل میں، ان کے برابر جانے آنے میں رات پر دن کا آنا، دن پر رات کا چھا جانا، ایک دوسرے کے پیچھے برابر لگاتار آنا جانا اور زمین و آسمان کا پیدا ہونا اور ان کی مخلوق کا رچایا جانا یہ سب عظمت رب کی بولتی ہوئی نشانیاں ہیں۔
«يُغْشِى الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا» 
[7-الأعراف:54]
 ‏‏‏‏ ” وہ رات سے دن ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے “۔
«لاَ الشَّمْسُ يَنبَغِى لَهَآ أَن تدْرِكَ القَمَرَ» 
[36-يس:40]
 ‏‏‏‏ ” نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے “۔
«فَالِقُ الإِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَناً» 
[6-الأنعام:96]
 ‏‏‏‏ ” وہ صبح کا نکالنے والا اس نے رات کو راحت کی چیز بنایا ہے اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے ان سے منہ پھیر لینا کوئی عقلمندی کی دلیل نہیں یہ نشانات بھی جنہیں فائدہ نہ دیں انہیں ایمان کیسے نصیب ہو گا؟ تم اپنے آگے پیچھے اوپر نیچے بہت سی چیزیں دیکھ سکتے ہو “۔
«وَكَأَيِّن مِّن ءَايَةٍ فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ» 
[12-يوسف:105] ‏‏‏‏ ” آسمانوں اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں “۔
«قُلِ انظُرُواْ مَاذَا فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَمَا تُغْنِى الآيَـتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لاَّ يُؤْمِنُونَ» [10-يونس:101] ‏‏‏‏ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئیے کہ تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو نشانیاں اور دھمکیاں کچھ فائدہ نہیں پہنچاتیں “۔
«أَفَلَمْ يَرَوْاْ إِلَى مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالاٌّرْضِ» 
[34-سبأ:9] ‏‏‏‏ ” کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں؟ “،
 «إِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَاخْتِلَـفِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لاّيَـتٍ لاٌّوْلِى الاٌّلْبَـبِ» 
[3-آل عمران:190] ‏‏‏‏ ” آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں عقلمندوں کے لیے یہ بڑی بڑی نشانیاں ہیں، کہ وہ سوچ سمجھ کر اللہ کے عذابوں سے بچ سکیں اور اس کی رحمت حاصل کر سکیں “۔

مقصد

امیدیں

انعام

صــبـر

خــزاں

قوت برداشت

آمـــیـن

گمان

شیطان سے بچنے کی دعائیں