Saturday, March 30, 2024

لیلۃ القدر میں پڑھنے کی دعاء

لیلۃ القدر (شب قدر) کی رات میں پڑھنے کی دعاء

شب قدرمیں ایک ایسی ساعت ہے کہ جس میں جو دعاء مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ شب قدر میں ایسی جامع دعاء مانگیں جو دونوں جہانوں میں فائدہ بخش ہو۔ مثلاً اپنے گناہوں کی بخشش اور رضائے الٰہی کے حصول کی دعاء مانگی جائے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ اگر مجھے شب قدر مل جائے تو میں اس میں کیا پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ پڑھا کرو۔

اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ
اے اللہ بے شک تو معاف کرنے والا ،معافی کو پسند فرماتا ہے لہذا مجھے معاف
فرما دے ۔
( رواہ احمد و الترمذی و سندہٗ صحیح ۔ مرعاۃ جلد ۴ صفحہ ۳۰۷ )

 

لیلتہ القدر

 شب قدر کا رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرنا:


اللہ تعالی نے اس رات کو اس لئے چھپا رکھا ہے، تاکہ بندے عبادت کرتے ہوئے اس رات کو تلاش کریں، اور یہ رات رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کی جائے گی، اور آخری عشرے کی طاق راتوں میں اس کا احتمال زیادہ ہے۔
چنانچہ،آپ صلى الله عليه وسلم كا ارشاد ہے:
٭شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔ (یعنی 21 یا 23 یا 25 ویں راتوں میں شب قدر کو تلاش کرو)

(صحیح بخاری :حدیث نمبر: 2021)

٭حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب کو شب قدر خواب میں ( رمضان کی )سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی تھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہو گئے ہیں۔ اس لیے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری ( طاق ) راتوں میں تلاش کرے۔
(صحیح بخاری | کتاب لیلۃ القدر | باب : شب قدر کو رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرنا | حدیث : 2015)

آخری عشرہ کی طاق راتیں 21-23-25-27-29 مراد ہیں.

”اِس شب سے ہی متعلق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی ہے کہ ” جس شخص نے شب ِ قدر میں اَجروثواب کی اُمید سے عبادت کی ،اِس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں” اِسی طرح حضرت ابوہریرہ سے ایک روایت ہے کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” جو شخص شبِ قدر میں عبادت کے لئے کھڑا رہا اِس کے تمام گناہ معاف ہوگئے”۔ امام زہری فرماتے ہیں کہ قدر کے معنی مرتبے کے ہیں چوں کہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف اور مرتبے کے لحاظ سے بلند تر ہے اِس لئے اِسے ” لیلتہ القدر” کہا جاتا ہے۔

صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم

ذکـر اللہ

بے شک

اور وہی ہے

 تمام مظاہر قدرت اس کی شان کے مظہر ہیں 


اوپر بیان ہوا کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے۔ سب پر قبضہ رکھنے والا، حاکم، تدبیر کرنے والا، مطیع اور فرمانبردار رکھنے والا اللہ ہی ہے۔ پھر دعائیں کرنے کا حکم دیا کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اب یہاں بیان ہو رہا ہے کہ رزاق بھی وہی ہے اور قیامت کے دن مردوں کو زندہ کر دینے والا بھی وہی ہے۔
پس فرمایا کہ بارش سے پہلے بھینی بھینی خوش گوار ہوائیں وہی چلاتا ہے۔ «بُشْرًا» کی دوسری قرأت «مُـبَـشِّـَراتٍ» بھی ہے۔ رحمت سے مراد یہاں بارش ہے۔
جیسے فرمان ہے 
«وَهُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهٗ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيْدُ»
 [42-الشورى:28]
 ‏‏‏‏ ” وہ ہے جو لوگوں کی ناامیدی کے بعد بارش اتارتا ہے اور اپنی رحمت کی ریل پیل کر دیتا ہے۔ وہ والی ہے اور قابل تعریف۔ “
ایک اور آیت میں ہے:
 ” رحمت رب کے آثار دیکھو کہ کس طرح مردہ زمین کو وہ جلا دیتا ہے، وہی مردہ انسانوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ [30-الروم:50] ‏‏‏‏
بادل جو پانی کی وجہ سے بوجھل ہو رہے ہیں، انہیں یہ ہوائیں اٹھالے چلتی ہیں۔ یہ زمین سے بہت قریب ہوتے ہیں اور سیاہ ہوتے ہیں۔
چنانچہ زید بن عمرو بن نفیل رحمہ اللہ کے شعروں میں ہے: میں اس کا مطیع ہوں جس کے اطاعت گزار میٹھے اور صاف پانی کے بھرے ہوئے بادل ہیں اور جس کے تابع فرمان بھاری بوجھل پہاڑوں والی زمین ہے۔ پھر ہم ان بادلوں کو مردہ زمین کی طرف لے چلتے ہیں جس میں کوئی سبزہ نہیں، خشک اور بنجر ہے۔ جیسے آیت
 «وَآيَةٌ لَّهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ» 
[36-يس:33] ‏‏‏‏
میں بیان ہوا ہے۔ پھر اس سے پانی برسا کر اسی غیر آباد زمین کو سرسبز بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح ہم مردوں کو زندہ کر دیں گے۔ حالانکہ وہ بوسیدہ ہڈیاں اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل گئے ہوں گے۔

Thursday, March 28, 2024

خوشخبری

 «بُشْرَىٰ»

 کی یہی تفسیر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ، مجاہد رحمہ اللہ، عروہ رحمہ اللہ، ابن زبیر، یحییٰ بن ابی کثیر، ابراہیم نخعی، عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ علیہم وغیرہ سلف صالحین سے مروی ہے۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد اس سے وہ خوشخبری ہے جو مومن کو اس کی موت کے وقت فرشتے دیتے ہیں جس کا ذکر 
«‏‏‏‏إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ»
 [41-فصلت:30-32]
 ‏‏‏‏ میں ہے کہ ” سچے پکے مومنوں کے پاس فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم خوف نہ کرو، تم غم نہ کرو، تمہیں ہم اس جنت کی خوشخبری سناتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔ ہم دنیا و آخرت میں تمہارے کار ساز ولی ہیں۔ سنو تم جو چاہو گے جنت میں پاؤ گے، جو مانگو گے ملے گا۔ تم غفور و رحیم اللہ کے خاص مہمان بنو گے “۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کی مطول حدیث میں ہے مومن کی موت کے وقت نورانی سفید چہرے والے پاک صاف اجلے سفید کپڑوں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں اے پاک روح چل کشادگی راحت تروتازگی اور خوشبو اور بھلائی کی طرف چل۔

تیرے اس پالنہار کی طرف جو تجھ سے کبھی خفا نہیں ہونے کا۔ پس اس کی روح اس بشارت کو سن کر اس کے منہ سے اتنی آسانی اور شوق سے نکلتی ہے جیسے مشک کے منہ سے پانی کا کوئی قطرہ چھو جائے۔ اور آخرت کی بشارت کا ذکر 
«لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَتَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰىِٕكَةُ ھٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ» 
[21-الأنبياء:103] ‏‏‏‏
میں ہے یعنی ” انہیں اس دن کی زبردست پریشانی بالکل ہی نہ گھبرائے گی ادھر ادھر سے ان کے پاس فرشتے آئے ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ اس دن کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا تھا “۔
ایک آیت میں ہے 
«‏‏‏‏يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْيَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ»
 [57-الحديد:12]
 ‏‏‏‏ ” جس دن تو مومن مردوں عورتوں کو دیکھے گا کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور دائیں طرف چل رہا ہوگا، لو تم خوشخبری سن لو کہ آج تمہیں وہ جنتیں ملیں گی، جن کے نیچے نہریں لہریں لے رہی ہیں، جہاں کی رہائش ہمیشہ کی ہوگی، یہی زبردست کامیابی ہے، اللہ کا وعدہ غلط نہیں ہوتا “۔ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا، اس نے جو فرما دیا سچ ہے، ثابت ہے، اٹل ہے یقینی اور ضروری ہے۔ یہ ہے پوری مقصد آوری، یہ ہے زبردست کامیابی، یہ ہے مراد کا ملنا اور یہ ہے گود کا بھرنا۔

اے رب

روزے کی فضیلت واہمیت

 روزے کی فضیلت و اہمیت


روزے کی فضیلت و اہمیت دیگر عبادات کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اور بے حساب ہے اس طرح ہے کہ انسان کے ہر نیک کام کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے جبکہ روزہ کا اجر خود ﷲ تعالیٰ عطاء کرے گا۔

┈• حدیث قدسی میں ہے کہ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :

کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأنَا اَجْزِيْ بِهِ.
’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے۔ پس یہ (روزہ) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔‘‘


بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب هل يقول انی صائم اذا شتم، 2 : 673، رقم : 1805.


روزہ دار کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے انتہا اجر وثواب کے ساتھ ساتھ کئی خوشیاں بھی ملیں گی۔

┈• حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا : إِذَا أفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ
’’روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سے اسے فرحت ہوتی ہے :
افطار کرے تو خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو روزہ کے باعث خوش ہوگا۔‘‘


1. بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب هل يقول إني صائم إذا شتم، 2 : 673، رقم : 1805
2. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب : فضل الصيام، 2 : 807، رقم : 1151

آمــیــــن

رمضان میں نبی کریم ﷺکی سخاوت

 رمضان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت:


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صدقات و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کبھی کوئی سوالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے خالی واپس نہ جاتا رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخاوت اور صدقات و خیرات میں کثرت سال کے باقی گیارہ مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہو جاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتےہیں:
فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عليه السلام کَانَ (رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم) أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيْحِ الْمُرْسَلَةِ.

بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب أجود ما کان النبی صلی الله عليه وآله وسلم يکون فی رمضان، 2 : 672 - 673، رقم : 1803


’’جب حضرت جبریل امین آجاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھلائی کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔‘‘


حضرت جبریل علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کی طرف سے پیغامِ محبت لے کر آتے تھے۔ رمضان المبارک میں چونکہ وہ عام دنوں کی نسبت کثرت سے آتے تھے اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے آنے کی خوشی میں صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کرتے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ﷲ پاک نے سخاوت کا دریا بنایا تھا یہ دریا ہمیشہ بہتا ہی رہتا تھا۔ مگر رمضان شریف میں یہ دریا گویا سمندر بن جاتا تھا جس کی موجوں کی کوئی انتہا نہیں ہوتی تھی۔ پس کوشش کرو کہ سخاوت کا چشمہ رمضان میں جاری رہے اور زیادہ سے زیادہ خلقِ خدا اس سے سیراب ہو ۔

غیبت

قــرآن

ریان جنت کا دروازہ


ریان جنت کا دروازہ

جنت میں بعض مخصوص اعمالِ صالحہ کے اعتبار سے آٹھ دروازے ہیں جو شخص دنیا میں خلوص نیت سے ان میں جس عملِ صالح کا بھی خوگر ہوگا وہ جنت میں اسی عمل کے دروازے سے جائے گا۔

ریان جنت کا وہ دروازہ ہے جس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے جیسا کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزِ قیامت اس میں روزہ دار داخل ہوں گے ان کے سوا اس دروازے سے کوئی اور داخل نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا : روزہ دار کہاں ہیں؟ پس وہ کھڑے ہوں گے، ان کے علاوہ اس میں سے کوئی اور داخل نہیں ہو سکے گا، جب وہ داخل ہو جائیں گے تو اس دروازے کو بند کر دیا جائے گا۔ پھر کوئی اور اس سے داخل نہیں ہو سکے گا۔‘‘

صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1791
حدیث مرفوع مکررات 7 متفق علیہ 3 بدون مکرر

دو معمولی گناہ

مغفرت

آمــیـن

Sunday, March 24, 2024

انسان دعاء مانگے قبول ہو گی

 انسان دعاء  مانگے قبول ہو گی 


اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دعا کی ہدایت کرتا ہے جس میں ان کی دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔ فرماتا ہے کہ اپنے پروردگار کو عاجزی، مسکینی اور آہستگی سے پکارو۔
جیسے فرمان ہے «وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ» [7-الأعراف:205] ‏‏‏‏ ” اپنے رب کو اپنے نفس میں یاد کر۔ “
بخاری و مسلم میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے دعا میں اپنی آوازیں بہت بلند کر دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! اپنی جانوں پر رحم کرو۔ تم کسی بہرے کو یا غائب کو نہیں پکار رہے۔ جسے تم پکار رہے ہو، وہ بہت سننے والا اور بہت نزدیک ہے۔ 
[صحیح بخاری:2992] ‏‏‏‏
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ پوشیدگی مراد ہے۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  «تَضَرُّعًا» کے معنی ذلت مسکینی اور اطاعت گزاری کے ہیں اور «خُفْيَةً» کے معنی دلوں کے خشوع خضوع سے، یقین کی صحت سے، اس کی وحدانیت اور ربوبیت کا، اس کے اور اپنے درمیان یقین رکھتے ہوئے پکارو۔ نہ کہ ریا کاری کے ساتھ، بہت بلند آواز سے۔
حسن رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ لوگ حافظ قرآن ہوتے تھے اور کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا تھا، لوگ بڑے فقیہہ ہو جاتے تھے اور کوئی جانتا بھی نہ تھا۔ لوگ لمبی لمبی نمازیں اپنے گھروں میں پڑھتے تھے اور مہمانوں کو بھی پتہ نہ چلتا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جہاں تک ان کے بس میں ہوتا تھا، اپنی کسی نیکی کو لوگوں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ پوری کوشش سے دعائیں کرتے تھے لیکن اس طرح جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو۔ یہ نہیں کہ چیخیں چلائیں۔
یہی فرمان رب ہے کہ اپنے رب کو عاجزی اور آہستگی سے پکارو۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نیک بندے کا ذکر کیا جس سے وہ خوش تھا کہ اس نے اپنے رب کو خفیہ طور پر پکارا۔
امام ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دعا میں بلند آواز، ندا اور چیخنے کو مکروہ سمجھا جاتا تھا بلکہ گریہ وزاری اور آہستگی کا حکم دیا جاتا تھا۔

صلـــی الله علیـــہ وآلـــہ وسلـــم

آمیــــن یارب العالمین

کیا ہماری نماز

آمیـــــــن

بد نصیب

سورة بقرہ کے مضامین


1۔ تقویٰ

تقویٰ کا لفظی مطلب بچنا ہے۔ قرآن کا مقصد چونکہ جہنم کے نقصان اور جنت کی محرومی سے بچانا ہے اس لیے اس کی یہ دعوت صرف ان لوگوں کی سمجھ میں آسکتی ہے جو ’تقویٰ‘ یعنی نقصان اور محرومی سے بچنے کی نفسیات میں جی رہے ہوں۔ ایک عام انسان اپنی زندگی اسی ’تقویٰ‘ کے اصول پر گزارتا ہے۔ یعنی وہ ہر نقصان اور تکلیف سے بچنا چاہتا ہے۔ اس کی ساری تگ و دو بھوک، پیاس، بے گھری، بے روزگاری وغیرہ سے بچنے کے لیے ہوتی ہے۔ اس طرح ہر انسان اصل میں متقی ہوتا ہے۔ قرآن بس اتنا کہتا ہے کہ اپنے تقویٰ کا رخ دنیا کے ساتھ آخرت کی طرف بھی کرلو۔ یعنی آخرت کے نقصان سے بچنے کی بھی فکر کرلو۔ یہی لوگ قرآن کی اصطلاح میں متقی ہیں۔ جو لوگ ان معنوں میں متقی نہیں قرآن کا کوئی مطالبہ ان پر موثر نہیں ہوتا۔

یہاں سمجھ لینا چاہیے کہ سورہ بقرۃ میں چونکہ شریعت دی جارہی ہے اس مقام پر بھی اور آگے اس سورت میں بے گنتی مقامات پر اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ ہدایت تو الله تعالیٰ ہی دیتے ہیں، مگر اس سے فائدہ صرف تقویٰ کی نفسیات میں جینے والے لوگ اٹھاتے ہیں۔

2۔ غیب میں رہ کر ایمان لانا

آج کے نسلی مسلمانوں کو شائد اس قرآنی مطالبے کی اہمیت کا اندازہ نہ ہو مگر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتدائی زمانے میں ایمان لانے والوں کی یہ اہم ترین خصوصیت تھی۔ آپ کے ابتدائی مخاطبین آپ کی دعوت کے ثبوت کے لیے حسی معجزات طلب کرتے تھے۔ وہ فرشتوں کے نزول اور آسمانی نشانیوں کے ظہور کا مطالبہ کرتے تھے۔ قرآن نے یہ اصول بیان کردیا کہ معجزات صرف نبیوں کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں اورحضور آخری نبی ہیں۔ اس لیے آپ کے معاصرین کو کوئی حسی معجزہ نہیں دکھایا جائے گا تاکہ بعد میں آنے والے لوگ بھی کسی معجزے کی فرمائش نہ کرسکیں۔ جو معجزہ پہلے لوگوں کے لیے حجت تھا یعنی قرآن وہی بعد میں آنے والوں کے لیے بھی ہوگا۔

اس پس منظر میں غیب میں رہ کر ایمان لانے کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمانوں کا ایمان عقلی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔ قدیم انسان ہوا کو دیکھ نہیں سکتا تھا مگر اس کے آثار محسوس کرکے اسے مانتا تھا۔ آج کا انسان زمین کی قوت کشش کو دیکھ نہیں سکتا مگر سائنسدانوں کی تحقیق کی بنیاد پر وہ مانتا ہے کہ زمین کی ایک قوت کشش ہے۔ اسی طرح دین کا ہر ایمانی مطالبہ، جس میں انسان کو غیبی حقائق یعنی خدا، فرشتوں اور جنت و جہنم کو مان لینے کی دعوت دی جاتی ہے، قرآن عقلی بنیادوں ہی پر ثابت کرتا ہے۔

اس بات کو سمجھ لینے کے بعد جو شخص بھی قرآن پڑھے گا وہ جان لے گا کہ کیوں الله تعالیٰ پورے قرآن میں ایمانیات پر عقلی دلائل دیتے رہتے ہیں۔ کیوں وہ مظاہرِ فطرت اور تاریخی آثار کو بار بار لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جو شخص اس پہلو سے قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرے گا وہ کبھی قرآن سے ہدایت حاصل نہیں کرسکتا۔

3۔ نماز کا قائم کرنا

نماز دین کا بنیادی مطالبہ ہے۔ یہ عام حالات میں سب سے بڑا عمل ہے، جو بندہ اپنے رب کے لیے کرسکتا ہے۔ یہ قیام، رکوع، سجود کی شکل میں عبادتِ رب اور اظہار بندگی کا خوبصورت ترین نمونہ ہے۔ جو شخص رب کی پرستش، اس کی یاد اور اس کی محبت کی اس اعلیٰ ترین سطح سے منہ موڑتا ہے وہ حدیث کے الفاظ میں گویا کہ کفر کا ارتکاب کردیتا ہے۔ یہاں نماز کے قیام کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہے کہ یہود نے اپنی نمازوں کو ضائع کردیا تھا۔ ختم نبوت کی بنا پر الله تعالیٰ نے یہ اہتمام تو فرما دیا کہ نماز کی شکل آج بھی الحمدللہ امت میں پوری طرح قائم ہے لیکن نماز کی اسپرٹ جو یاد الہی ہے، اس سے اکثر نماز پڑھنے والے مسلمان بھی غفلت میں رہتے ہیں۔

4۔ انفاق

نماز کے ساتھ دین کا دوسرا مطالبہ ہے جو قرآن جگہ جگہ دہراتا ہے۔ ان آیات میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ انفاق کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا انفاق اصل میں الله کے دیے ہوئے مال میں سے ہوتا ہے۔ وہ انفاق کرکے نہ ﷲ پر احسان کرتے ہیں نہ اس کے بندوں پر۔ بلکہ صرف اپنا بھلا کرتے ہیں۔

5۔ بلا تعصب ایمان

ایمان کا ایک پہلو تو اوپر بیان ہوا کہ یہ غیب میں رہ کر عقلی امکانات کی بنیاد پر بعض حقائق کو مان لینے کا نام ہے۔ اس کا دوسرا پہلو ان آیات میں خاص یہود کے پس منظر میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی وہ کہتے تھے کہ ہم خدا اور نبیوں کے ماننے والے ہیں، مگر ان کتابوں کو مانتے ہیں جو انبیائے بنی اسرائیل پر نازل ہوئیں۔ ﷲ تعالیٰ اس کے برعکس یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ تعصب جمع نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ بات ثابت ہے کہ محمد صلی ﷲ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں تو پھر ان پر نازل ہونے والی کتاب کو نہ ماننے کی کوئی گنجائش نہیں۔ بندہ مومن اپنے فرقہ اور گروہ کے حق سے دلچسپی نہیں رکھتا، بلکہ خدا کے نازل کردہ حق سے دلچسپی رکھتا ہے۔ چاہے یہ حق اپنے گروہ کی طرف سے پیش ہو یا کسی اور گروہ کے کسی شخص کی طرف سے۔

6۔ آخرت پر یقین

آخرت پر یقین قرآن کی اصل دعوت ہے۔ وہ لوگوں کو خدا کے ابدی منصوبے سے روشناس کرانے آیا ہے۔ یعنی اصل دنیا تو آخرت کی دنیا ہے۔ یہ دنیا تو محض امتحان ہے۔ یہاں کا ملنا کھونا، ہنسنا رونا، خوشی غم، کامیابی ناکامی سب امتحان ہے۔ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ جس شخص کو یہ یقین نہ ہو وہ کبھی قرآن کی ہدایت کونہیں پاسکتا۔ شروع میں جس تقویٰ کا ذکر ہوا ہے وہ اس یقین کے بغیر کبھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے یہاں آخرت پر ایمان سے زیادہ یقین کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

رمــضـان

ذرا سوچیے

 ذرا سوچیے ۔۔۔!!


اگر روزے کی حالت میں بھی ہماری زبانیں کذب بیانی اور دروغ گوئی میں مصروف رہیں، ہمارے ہاتھوں سے غلط اور ناجائز کام ہوتے رہیں ، اللہ کی نافرمانی کے کام حسب معمول ہم انجام دیتے رہیں تو پھر بھلا ہمارے روزوں کا کیا فائدہ اور حاصل ہے

اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
((مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ))

‏اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے.
(صحيح بخاري:1903)

اس لیے ہم سب کو اپنا اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کیا واقعی ہم ویسا روزہ رکھ رہے ہیں جو اللہ کو مطلوب ہے.

اللہ ہمیں روزے کے اصل مقاصد کو پورا کرتے ہوئے اِس عظیم عبادت کو انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری جملہ عبادات کو قبول فرمائے.

آمیــــــــن 



Wednesday, March 20, 2024

روزہ اور سجدہ

جنت کے دروازے

 عام طور پر دو چیزیں گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا باعث بنتی ہیں:


1. نفس کی بڑھتی ہوئی خواہشات اور اس کی سرکشی
2. شیطان کا مکر و فریب

شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے، وہ نہ صرف خود بلکہ اپنے لاؤ لشکر اور چیلوں کی مدد سے دنیا میں ہر انسان کو دینِ حق سے غافل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے مگر رمضان المبارک کی اتنی برکت و فضیلت ہے کہ شیطان کو اس ماہ مبارک میں جکڑ دیا جاتا ہے۔

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔‘‘

رمضان المبارک میں شیطانوں کے جکڑ دیئے جانے سے یہ مراد ہے کہ شیطان لوگوں کو بہکانے سے باز رہتے ہیں اور اہلِ ایمان ان کے وسوسے قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کے باعث حیوانی قوت مغلوب ہو جاتی ہے اور اس کے برعکس قوتِ عقلیہ جو طاقت اور نیکیوں کا باعث ہے، روزے کی وجہ سے قوی ہوتی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ رمضان میں عام دنوں کی نسبت گناہ کم ہوتے ہیں اور عبادت زیادہ ہوتی ہے۔

شیطانوں کے جکڑے جانے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ گناہوں میں منہمک ہونے والے اکثر لوگ رمضان میں باز آجاتے ہیں اور توبہ کرکے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پہلے وہ نماز قائم نہیں کرتے تھے، اب پڑھنے لگتے ہیں، اسی طرح وہ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر کی محافل میں بھی شریک ہونے لگتے ہیں، حالانکہ وہ پہلے ایسا نہیں کیا کرتے تھے۔ پہلے جن گناہوں میں علی الاعلان مشغول رہتے تھے اب ان سے باز آجاتے ہیں۔ بعض لوگ جن کا عمل اس کے خلاف نظر آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطانی وساوس ان کے شریر نفوس کی جڑوں میں سرایت کر چکے ہوتے ہیں کیونکہ آدمی کا نفس اس کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

اگر کوئی یہ کہے کہ زمانے میں شر تو موجود ہے اور گناہ بھی مسلسل ہو رہے ہیں تو پھر شیطان کے جکڑنے کا کیا فائدہ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان المبارک سے شیطان کی سرکشی اور طغیانی کی شدت ٹوٹتی ہے اور اس کے ہتھیار کند ہو جاتے ہیں اور اس کی بھڑکائی ہوئی آگ کچھ مدت کے لئے ٹھنڈی پڑ جاتی 
ہے۔

قید

روزہ

روزہ کا اصل مقصد تزکیہ و تقوی کا حصول ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ياَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.
(البقره،2:183)

اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے
جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ''۔

تقویٰ کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں ، جب تک کہ انسان دنیا کی خواہشات کے بندھن سے آزاد نہ ہو جائے اور ماہِ رمضان خواہشاتِ نفس کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالتا ہے۔ روزہ بظاہر ایک مشقت والی عبادت ہے لیکن حقیقت میں اپنے مقصد اور نتیجے کے لحاظ سے یہ دنیا میں موجب راحت اور آخرت میں باعث رحمت ہے۔ روزہ دار دن بھر اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں نہ کچھ کھاتا ہے نہ پیتا ہے لیکن 
افطار کے وقت اس پابندی کے اختتام کو بھی اپنے لئے باعث مسرت سمجھتا ہے۔