Sunday, June 30, 2024

اَللّٰهُمَّ صَلِّ وَسَلِّم عَلَی نَبِیِّـنَا مُحَمَّد

اللہ خالق کل

 زمین کو طول عرض میں پھیلا کر اللہ ہی نے بچھایا ہے۔ اس میں مضبوط پہاڑ بھی اسی کے گاڑے ہوئے ہیں، اس میں دریاؤں اور چشموں کو بھی اسی نے جاری کیا ہے۔ تاکہ مختلف شکل و صورت، مختلف رنگ، مختلف ذائقوں کے پھل پھول کے درخت اس سے سیراب ہوں۔ جوڑا جوڑا میوے اس نے پیدا کئے، کھٹے میٹھے وغیرہ۔

رات دن ایک دوسرے کے پے در پے برابر آتے جاتے رہتے ہیں، ایک کا آنا دوسرے کا جانا ہے پس مکان سکان اور زمان سب میں تصرف اسی قادر مطلق کا ہے۔ اللہ کی ان نشانیوں، حکمتوں، اور دلائل کو جو غور سے دیکھے وہ ہدایت یافتہ ہو سکتا ہے۔ زمین کے ٹکڑے ملے جلے ہوئے ہیں، پھر قدرت کو دیکھے کہ ایک ٹکڑے سے تو پیداوار ہو اور دوسرے سے کچھ نہ ہو۔ ایک کی مٹی سرخ، دوسرے کی سفید، زرد، وہ سیاہ، یہ پتھریلی، وہ نرم، یہ میٹھی، وہ شور۔ ایک ریتلی، ایک صاف، غرض یہ بھی خالق کی قدرت کی نشانی ہے اور بتاتی ہے کہ فاعل، خود مختار، مالک الملک، لا شریک ایک وہی اللہ خالق کل ہے۔ نہ اس کے سوا کوئی معبود، نہ پالنے والا۔


Saturday, June 29, 2024

بد دعاء

 بد دعاء اور انسان

----------------
یعنی انسان کبھی کبھی دلگیر اور ناامید ہو کر اپنی سخت غلطی سے خود اپنے لیے برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے۔ کبھی اپنے مال واولاد کے لئے بد دعاء کرنے لگتا ہے کبھی موت کی ، کبھی ہلاکت کی ، کبھی بربادی اور لعنت کی ۔
لیکن اس کا اللہ اس پر خود اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ادھر وہ دعاء کرے ادھر وہ قبول فرما لے تو ابھی ہلاک ہو جائے ۔

حدیث میں بھی ہے کہ ‏‏‏‏ اپنی جان و مال کے لیے بد دعاء نہ کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت میں کوئی ایسا بد کلمہ زبان سے نکل جائے۔
[صحیح مسلم:3009]
‏‏‏‏

اس کی وجہ صرف انسان کی اضطرابی حالت اور اس کی جلد بازی ہے۔
یہ ہے ہی جلد باز۔ سیدنا سلمان فارسی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم نے اس موقعہ پر آدم علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ ابھی پیروں تلے روح نہیں پہنچی تھی کہ آپ نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا روح سر کی طرف سے آرہی تھی ناک تک پہنچی تو چھینک آئی آپ نے کہا «الحمدللہ» ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا «‏‏‏‏يَرْحَمُكَ اللَّهُ يَا آدَمُ» اے آدم تجھ پر تیرا رب رحم کرے۔

جب آنکھوں تک پہنچی تو آنکھیں کھول کر دیکھنے لگے۔ جب اور نیچے کے اعضاء میں پہنچی تو خوشی سے اپنے آپ کو دیکھنے لگے۔ ابھی پیروں تک نہیں پہنچی تو چلنے کا ارادہ کیا لیکن نہ چل سکے تو دعا کرنے لگے کہ اے اللہ رات سے پہلے روح آجائے۔

تفسیر آیت/آیات، 11
سورۃ الإسراء/بني اسرائيل


تکبرو غرور

 اپنا منہ لوگوں سے نہ موڑ انہیں حقیر سمجھ کریا اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر لوگوں سے تکبر نہ کر۔ بلکہ نرمی برت خوش خلقی سے پیش آ۔ خندہ پیشانی سے بات کر۔‏‏‏‏

حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان بھائی سے تو کشادہ پیشانی سے ہنس مکھ ہو کر ملے یہ بھی تیری بڑی نیکی ہے۔ تہبند اور پاجامے کو ٹخنے سے نیچا نہ کر یہ تکبرو غرور ہے اور تکبر اور غرور اللہ کو ناپسند ہے ۔ [سنن ابوداود:4084،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو تکبر نہ کرنے کی وصیت کی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اللہ کے بندوں کو حقیر سمجھ کر تو ان سے منہ موڑ لے اور مسکنیوں سے بات کرنے سے بھی شرمائے۔‏‏‏‏ منہ موڑے ہوئے باتیں کرنا بھی غرور میں داخل ہے۔ باچھیں پھاڑ کر لہجہ بدل کر حاکمانہ انداز کے ساتھ گھمنڈ بھرے الفاظ سے بات چیت بھی ممنوع ہے۔
صعر ایک بیماری ہے جو اونٹوں کی گردن میں ظاہر ہوتی ہے یا سر میں اور اس سے گردن ٹیڑھی ہو جاتی ہے، پس متکبر شخص کو اسی ٹیڑھے منہ والے شخص سے ملا دیا گیا۔ عرب عموماً تکبر کے موقعہ پر صعر کا استعمال کرتے ہیں اور یہ استعمال ان کے شعروں میں بھی موجود ہے۔ زمین پر تن کر، اکڑ کر، اترا کر، غرور وتکبر سے نہ چلو یہ چال اللہ کو ناپسند ہے۔
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند رکھتا ہے جو خود بین متکبر سرکش اور فخر و غرور کرنے والے ہوں اور آیت میں ہے «‏‏‏‏وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا» [17-الإسراء:37] ‏‏‏‏، یعنی ” اکڑ کر زمین پر نہ چلو نہ تو تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ پہاڑوں کی لمبائی کو پہنچ سکتے ہو “۔ 
اور میانہ روی کی چال چلا کر نہ بہت آہستہ، خراماں خراماں نہ بہت جلدی لمبے ڈگ بھربھر کے۔ کلام میں مبالغہ نہ کرے بے فائدہ چیخ چلا نہیں۔ بدترین آواز گدھے کی ہے۔ جو پوری طاقت لگا کر بےسود چلاتا ہے۔ باوجودیکہ وہ بھی اللہ کے سامنے اپنی عاجزی ظاہر کرتا ہے۔‏‏‏‏ پس یہ بھی بری مثال دے کر سمجھا دیا کہ بلاوجہ چیخنا ڈانٹ ڈپٹ کرنا حرام ہے۔

اللہ وہ ہے

 کمال قدرت اور عظمت سلطنت ربانی دیکھو کہ بغیر ستونوں کے آسمان کو اس نے بلند بالا اور قائم کر رکھا ہے۔ زمین سے آسمان کو اللہ نے کیسا اونچا کیا اور صرف اپنے حکم سے اسے ٹھرایا۔ جس کی انتہا کوئی نہیں پاتا۔ آسمان دنیا ساری زمین کو اور جو اس کے اردگرد ہے پانی ہوا وغیرہ سب کو احاطہٰ کئے ہوئے ہے اور ہر طرف سے برابر اونچا ہے، زمین سے پانچ سو سال کی راہ پر ہے، ہر جگہ سے اتنا ہی اونچا ہے۔ پھر اس کی اپنی موٹائی اور دل بھی پانچ سو سال کے فاصلے کا ہے، پھر دوسرا آسمان اس آسمان کو بھی گھیرے ہوئے ہے اور پہلے سے دوسرے تک کا فاصلہ وہی پانچ سو سال کا ہے۔ اسی طرح تیسرا پھر چوتھا پھر پانچواں پھر چھٹا پھر ساتواں جیسے فرمان الٰہی ہے آیت «‏‏‏‏اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ» ‏‏‏‏ [ 65- الطلاق: 12 ] ‏‏‏‏ یعنی اللہ نے سات آسمان بیدا کئے ہیں اور اسی کے مثل زمین۔ حدیث شریف میں ہے ساتوں آسمان اور ان میں اور ان کے درمیان میں جو کچھ ہے وہ کرسی کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے کہ چٹیل میدان میں کوئی حلقہ ہو اور کرسی عرش کے مقابلے پر بھی ایسی ہی ہے۔ عرش کی قدر اللہ عزوجل کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔

بعض سلف کا بیان ہے کہ عرش سے زمین تک کا فاصلہ پچاس ہزار سال کا ہے۔ عرش سرخ یاقوت کا ہے۔ بعض مفسر کہتے ہیں آسمان کے ستون تو ہیں لیکن دیکھے نہیں جاتے۔ لیکن ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں آسمان زمین پر مثل قصبے کے ہے یعنی بغیر ستون کے ہے۔ قرآن کے طرز عبارت کے لائق بھی یہی بات ہے اور آیت «وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَن تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ» [22-الحج:65] ‏‏‏‏ سے بھی ظاہر ہے پس «تَرَوْنَهَا» اس نفی کی تاکید ہوگی یعنی آسمان بلا ستون اس قد بلند ہے اور تم آپ دیکھ رہے ہو، یہ ہے کمال قدرت۔
امیہ بن ابو الصلت کے اشعار میں ہے، جس کے اشعار کی بابت حدیث میں ہے کہ اس کے اشعار ایمان لائے ہیں اور اس کا دل کفر کرتا ہے اور یہ بھی روایت ہے کہ یہ اشعار زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کے ہیں جن میں ہے «وَأَنْتَ الَّذِي مِنْ فَضْلِ مَنٍّ وَرَحْمَةٍ بَعَثْتَ إِلَى مُوسَى رَسُولًا مُنَادِيَا فَقُلْتَ لَهُ: فَاذْهَبْ وَهَارُونَ فَادْعُوَا إِلَى اللَّهِ فَرْعَونَ الَّذِي كَانَ طَاغِيًا وَقُولَا لَهُ: هَلْ أَنْتَ سَوَّيْتَ هَذِهِ بِلَا وَتِدٍ حَتَّى اطْمَأَنَّتْ كَمَا هِيَا وَقُولَا لَهُ: أَأَنْتَ رَفَعْتَ هَذِهِ بِلَا عَمَدٍ أَرْفِقْ إِذًا بِكَ بَانِيَا؟ وَقُولَا لَهُ: هَلْ أَنْتَ سَوَّيْتَ وَسْطَهَا مُنِيرًا إِذَا مَا جَنَّكَ اللَّيلُ هَادِيًا وَقُولَا لَهُ: مَنْ يُرْسِلُ الشَّمْسَ غُدْوَةً فيُصْبِحَ مَا مَسَّتْ مِنَ الْأَرْضِ ضَاحِيَا؟ وَقُولَا لَهُ: مَنْ يُنْبِتُ الْحَبَّ فِي الثَّرَى فيُصْبِحَ مِنْهُ العُشْبُ يَهْتَزُّ رَابِيَا؟ وَيُخْرِجُ مِنْهُ حَبَّهُ فِي رُءُوسِهِ فَفِي ذَاكَ آيَاتٌ لِمَنْ كَانَ وَاعِيَا» تو اللہ وہ ہے جس نے اپنے فضل و کرم سے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کو مع ہارون علیہ السلام کے فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور ان سے فرما دیا کہ اس سرکش کو قائل کرنے کے لیے اس سے کہیں کہ اس بلند و بالا بےستون آسمان کو کیا تو نے بنایا ہے؟ اور اس میں سورج چاند ستارے تو نے پیدا کئے ہیں؟ اور مٹی سے دانوں کو اگانے والا پھر ان درختوں میں بالیں پیدا کر کے ان میں دانے پکانے والا کیا تو ہے؟ کیا قدرت کی یہ زبردست نشانیاں ایک گہرے انسان کے لیے اللہ کی ہستی کی دلیل نہیں ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوا۔ اس کی تفسیر سورۃ الاعراف میں گزر چکی ہے۔ اور یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ جس طرح ہے اسی طرح چھوڑ دی جائے۔ کیفیت، تشبیہ، تعطیل، تمثلیل سے اللہ کی ذات پاک ہے اور برتر و بالا ہے۔ سورج چاند اس کے حکم کے مطابق گردش میں ہیں اور وقت موزوں یعنی قیامت تک برابر اسی طرح لگے رہیں گے۔
جیسے فرمان ہے کہ «وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ» [36-يس:38] ‏‏‏‏ ” سورج اپنی جگہ برابر چل رہا ہے “۔ اس کی جگہ سے مراد عرش کے نیچے ہے جو زمین کے تلے سے دوسری طرف سے ملحق ہے یہ اور تمام ستارے یہاں تک پہنچ کر عرش سے اور دور ہو جاتے ہیں کیونکہ صحیح بات جس پر بہت سی دلیلیں ہیں یہی ہے کہ وہ قبہ ہے متصل عالم باقی آسمانوں کی طرح وہ محیط نہیں اس لیے کہ اس کے پائے ہیں اور اس کے اٹھانے والے ہیں اور یہ بات آسمان مستدیر گھومے ہوئے آسمان میں تصور میں نہیں آ سکتی جو بھی غور کرے گا اسے سچ مانے گا۔ آیات و احادیث کا جانچنے والا اسی نتیجے پر پہنچے گا۔ «وَلِلَّهِ الْحَمْد وَالْمِنَّة»
صرف سورج چاند کا ہی ذکر یہاں اس لیے ہے کہ ساتوں سیاروں میں بڑے اور روشن یہی دو ہیں پس جب کہ یہ دونوں مسخر ہیں تو اور تو بطور اولیٰ مسخر ہوئے۔ جیسے کہ «لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ» [41-الفصلت:37] ‏‏‏‏ سورج چاند کو سجدہ نہ کرو سے مراد اور ستاروں کو بھی سجدہ نہ کرنا ہے۔ پھر اور آیت میں تصریح بھی موجود ہے فرمان ہے «الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ بِاَمْرِهٖ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ» [7-الأعراف:54] ‏‏‏‏ یعنی ” سورج چاند اور ستارے اس کے حکم سے مسخر ہیں، وہی خلق و امر والا ہے، وہی برکتوں والا ہے وہی رب العالمین ہے “۔
وہ اپنی آیتوں کو اپنی وحدانیت کی دلیلوں کو بالتفصیل بیان فرما رہا ہے کہ تم اس کی توحید کے قائل ہو جاؤ اور اسے مان لو کہ وہ تمہیں فنا کر کے پھر زندہ کر دے گا۔

Thursday, June 27, 2024

سنیں

ہمت کیجیے

سب کا خالق اللہ

 عقل کے اندھے ضدی لوگ 


اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جھٹلانے کا کوئی تعجب نہ کریں یہ ہیں ہی ایسے اس قدر نشانیاں دیکھتے ہوئے، اللہ کی قدرت کا ہمیشہ مطالعہ کرتے ہوئے، اسے مانتے ہوئے کہ سب کا خالق اللہ ہی ہے پھر بھی قیامت کے منکر ہوتے ہیں حالانکہ اس سے بڑھ کر روز مرہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ سب کچھ کر دیتا ہے “۔ ہر عاقل جان سکتا ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش انسان کی پیدائش سے بہت بڑی ہے۔ اور دوبارہ پیدا کرنا بہ نسبت اول بار پیدا کرنے کے بہت آسان ہے۔
جیسے فرمان ربانی ہے 
«اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى بَلٰٓي اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ»
 [46-الأحقاف:33]
 ‏‏‏‏ یعنی ” جس نے آسمان و زمین بغیر تھکے پیدا کر دیا، کیا وہ مردوں کو جلانے پر قادر نہیں؟ بیشک ہے بلکہ ہر چیز اس کی قدرت میں ہے “۔
پس یہاں فرماتا ہے کہ ” اصل یہ کفار ہیں، ان کی گردنوں میں قیامت کے دن طوق ہوں گے اور یہ جہنمی ہیں جو ہمیشہ جہنم میں رہیں گے “۔

یاد رکھیں

بخل کرنے والا

 بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ


اَلَّـذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ وَيَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْـتُمُوْنَ مَآ اٰتَاهُـمُ اللّـٰهُ مِنْ فَضْلِـهٖ ۗ وَاَعْتَدْنَا لِلْكَافِـرِيْنَ عَذَابًا مُّهِيْنًا
جو لوگ بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بخل سکھاتے ہیں اور اسے چھپاتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے ، اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

وَالَّـذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَـهُـمْ رِئَـآءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُـوْنَ بِاللّـٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۗ وَمَنْ يَّكُنِ الشَّيْطَانُ لَـهٝ قَرِيْنًا فَسَآءَ قَرِيْنًا
اور جو لوگ اپنے مالوں کو لوگوں کے دکھانے میں خرچ کرتے ہیں اور اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے، اور جس کا شیطان ساتھی ہوا تو وہ بہت برا ساتھی ہے۔ سورۃ النساء :37-38

تفسیر آیات
خود بینی اور فخر کرنے والے کے بعد اللہ کو بخل کرنے والا نا پسند ہے۔ فیاضی ایک آفاقی اور فطری عمل ہے۔ سورج، زمین، آب اور ہوا نے اپنی فیاضی سے کائنات کو پر رونق بنایا ہے۔ اس کے خلاف بخل کرنا ایک نہایت گھٹیا عمل ہے۔جو شخص بخل کر کے دولت جمع کرتا ہے اور وہ اس عمل سے دوسروں کو بھی بخل کی تعلیم دیتا ہے کہ مال و دولت بخل سے ہی بن سکتی ہے نیز بخیل اپنی بود و باش میں فقیروں کی طرح زندگی گزارتا ہے اور اس طرح اللہ کے فضل و کرم کو وہ عملاً چھپاتا ہے۔

وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ: اس جگہ کافر سے مراد اللہ کی نعمتوں کو چھپانے والے مراد ہو سکتے ہیں۔ چونکہ کفر چھپانے کے معنوں میں ہوتا ہے۔

اللہ کے فضل کو چھپانا یہ ہے کہ آدمی اس طرح رہے گویا کہ اللہ نے اس پر فضل نہیں کیا ہے ۔ مثلاً کسی کو اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اپنی حیثیت سے گر کر رہے ۔ نہ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے ، نہ بندگان خدا کی مدد کرے ، نہ نیک کاموں میں حصہ لے ۔ لوگ دیکھیں تو سمجھیں کہ بیچارہ بڑا ہی خستہ حال ہے ۔ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی سخت ناشکری ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی خوشنودی کے موقعہ پر مال خرچ کرنے سے جی چراتے ہیں مثلاً ماں باپ کو دینا، قرابت داروں سے اچھا سلوک نہیں کرتے، یتیم مسکین پڑوسی رشتہ دار غیر رشتہ دار پڑوسی ساتھی مسافر غلام اور ماتحت کو ان کی محتاجی کے وقت فی سبیل اللہ نہیں دیتے، اتنا ہی نہیں بلکہ لوگوں کو بھی بخل اور فی سبیل اللہ خرچ نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کون سی بیماری بخل کی بیماری سے بڑھ کر ہے؟ ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ [صحیح بخاری:4383] ‏‏‏‏

پھر فرمایا یہ لوگ ان دونوں برائیوں کے ساتھ ہی ساتھ ایک تیسری برائی کے بھی مرتکب ہیں یعنی اللہ کی نعمتوں کو چھپاتے ہیں انہیں ظاہر نہیں کرتے نہ ان کے کھانے پینے میں وہ ظاہر ہوتی ہیں نہ پہننے اوڑھنے میں نہ دینے لینے میں

جیسے اور جگہ ہے
اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌ وَاِنَّهٗ عَلٰي ذٰلِكَ لَشَهِيْدٌ
العاديات:6-7 ‏‏‏‏‏‏‏‏

یعنی ” انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے اور وہ خود ہی اپنی اس حالت اور اس خصلت پر گواہ ہے “
پھر

وَاِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ ‏‏‏‏
-العاديات:8 ‏‏‏‏

وہ مال کی محبت میں مست ہے “، پس یہاں بھی فرمان ہے کہ اللہ کے فضل کو یہ چھپاتا رہتا ہے۔

۔ وَ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ: اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے تو مال خرچ کرتے ہوئے ریاکاری کی ضرور ت نہ تھی ۔ وہ رضائے خدا اور زاد آخرت کے لیے مال خرچ کر کے مال سے خوب فائدہ اٹھا سکتے تھے ، لیکن چونکہ اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور صرف اسی چند روزہ زندگی پر ایمان رکھتے ہیں ، لہٰذا مال وہ ایسی جگہ خرچ کریں گے ، جہاں ان کے خیال خام میں دنیاوی فائدہ ہے۔

۔ وَ مَنۡ یَّکُنِ الشَّیۡطٰنُ: ریا کاری ایک شیطانی خصلت ہے۔ لہٰذا ریاکار کو شیطان کی رفاقت حاصل ہے۔ چنانچہ یہ خصلت اس نے شیطان سے اخذ کی ہے۔

پھر ان کا بیان ہوا جو دیتے تو ہیں لیکن بدنیتی اور دنیا میں اپنی واہ واہ ہونے کی خاطر دیتے ہیں چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ جن تین قسم کے لوگوں سے جہنم کی آگ سلگائی جائے گی وہ یہی ریاکار ہوں گے ، ریاکار عالم ، ریاکار غازی ، ریا کار سخی ایسا سخی کہے گا باری تعالیٰ تیری ہر ہر راہ میں ، میں نے اپنا مال خرچ کیا تو اسے اللہ تعالیٰ کی جناب سے جواب ملے گا کہ تو جھوٹا ہے تیرا ارادہ تو صرف یہ تھا کہ تو سخی اور جواد مشہور ہو جائے سو وہ ہو چکا۔ [صحیح مسلم:1905] ‏‏‏‏ یعنی تیرا مقصود دنیا کی شہرت تھی وہ میں نے تجھے دنیا میں ہی دے چکا پس تیری مراد حاصل ہو چکی۔
درحقیقت وہ لوگ اللہ تعالیٰ اور آخرت پر یقین نہیں رکھتے۔ کیونکہ انکا اللہ اور آخرت پر یقین ہوتا تو یہ بطور احسان ، نمود و نمائش اور لوگوں سے خوشامد کی صورت میں اپنے صدقہ کا معاوضہ نہ لیتے۔ اگر ان کا آخرت پر یقین ہوتا تو یہ دنیا میں عارضی شہرت کی خاطر آخرت کا دائمی اجر ضائع نہ کرتے۔ اس ہلکے پن اور جلد بازی کا حقیقی سبب شیطان کا پھسلانا اور اکسانا ہے۔ شیطان تو آدمی کا بدترین ساتھی ہے۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ ضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلَ الْبَخِیْلِ وَالْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَیْنِ عَلَیْھِمَا جُبَّتَانِ مِنْ حَدِیْدٍ قَدِ اضْطُرَّتْ أَیْدِیْھِمَا إِلٰی ثَدِیِّھِمَا وَتَرَاقِیْھِمَا فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ انْبَسَطَتْ عَنْہُ حَتّٰی تَغْشٰی أَنَامِلَہٗ وََتَعْفُوَ أَثَرَہٗ وَجَعَلَ الْبَخِِیْلُ کُلَّمَا ھَمَّ بِصَدَقَۃٍ قَلَصَتْ وَأَخَذَتْ کُلُّ حَلْقَۃٍ بِمَکَانِھَا قَالَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ (رض) فَأَنَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ بِإِصْبَعِہٖ ھٰکَذَا فِيْ جَیْبِہٖ فَلَوْ رَأَیْتَہٗ یُوَسِّعُھَا وَلَا تَتَوَسَّعُ )
[ رواہ البخاری : کتاب اللباس، باب جیب القمیص من عند الصدر وغیرہ ]
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال دی کہ اس کی مثال دو آدمیوں کی طرح ہے جو ہاتھ، سینے اور حلق تک فولادی قمیض پہنے ہوئے ہوں۔ صدقہ دینے والا جب بھی صدقہ کرتا ہے تو اس کا جبہ کشادہ ہوجاتا ہے اور وہ اس کی انگلیوں تک بڑھ جاتا ہے اور قدموں کو ڈھانک لیتا ہے اور بخیل جب صدقہ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا جبہ اس سے چمٹ جاتا ہے یہاں تک ہر حلقہ اپنی جگہ پر جم جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ اپنی انگلیوں سے اپنے گریبان کی طرف اشارہ کرکے بتا رہے تھے کہ تم دیکھو گے کہ وہ اس کو کھولنا چاہے گا لیکن وہ نہیں کھلے گا۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَامِنْ یَوْمٍ یُّصْبِحُ الْعِبَادُ فِیْہِ إِلَّا مَلَکَانِ یَنْزِلَانِ فَیَقُوْلُ أَحَدُھُمَا اَللّٰھُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَیَقُوْلُ الْآخَرُ اللّٰھُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا)
[ رواہ البخاری :

کتاب الزکاۃ، باب قول اللّٰہِ تعالیٰ فأما من أعطی واتقی وصدق بالحسنیٰ ]
حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک یہ آواز لگاتا ہے اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو اور عطا فرما۔ دوسرا یہ آواز لگاتا ہے اے اللہ ! نہ خرچ کرنے والے کا مال ختم کردے۔

مسائل
١۔ بخل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ذلت آمیز عذاب دیں گے۔
٢۔ نمود و نمائش کے لیے خرچ کرنے والے شیطان کے ساتھی ہیں۔ تفسیر بالقرآن شیطان بد ترین ساتھی ہے
1۔ شیطان انسان کا دشمن ہے۔ (البقرۃ : ١٦٨)
2۔ شیطان کی رفاقت کا بدترین انجام۔ (الفرقان : ٢٧، ٢٩)
3۔ شیطان بےوفائی سکھلاتا ہے۔ (الحشر : ١٦)
4۔ شیطان بدترین ساتھی ہے۔ (النساء : ٣٨)
5۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ دشمنی کی۔
(الاعراف : ٢٠ تا ٢٢)

نشانیاں

 «صِنْوَانٍ»

 کہتے ہیں ایک درخت جو کئی تنوں اور شاخوں والا ہو جیسے انار اور انجیر اور بعض کھجوریاں۔ 

«وَغَيْرُ صِنْوَانٍ»

 جو اس طرح نہ ہو ایک ہی تنا ہو جیسے اور درخت ہوتے ہیں۔ اسی سے انسان کے چچا کو 

«صُنوُالْاَبْ»

 کہتے ہیں۔

حدیث میں بھی یہ آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ انسان کا چچا مثل باپ کے ہوتا ہے ۔ [صحیح مسلم:983] ‏‏‏‏
سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک جڑ یعنی ایک تنے میں کئی ایک شاخدار درخت کھجور ہوتے ہیں اور ایک تنے پر ایک ہی ہوتا ہے یہی صنوان اور غیر صنوان ہے۔‏‏‏‏ یہی قول اور بزرگوں کا بھی ہے۔ سب کے لیے پانی ایک ہی ہے یعنی بارش کا لیکن ہر مزے اور پھل میں کمی بیشی میں بے انتہا فرق ہے، کوئی میٹھا ہے، کوئی کھٹا ہے۔ حدیث میں بھی یہ تفسیر ہے ملاحظہ ہو ترمذی شریف۔ [سنن ترمذي:3118،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏
الغرض قسموں اور جنسوں کا اختلاف، شکل صورت کا اختلاف، رنگ کا اختلاف، بو کا اختلاف، مزے کا اختلاف، پتوں کا اختلاف، تروتازگی کا اختلاف، ایک بہت ہی میٹھا، ایک سخت کڑوا، ایک نہایت خوش ذائقہ، ایک بے حد بد مزا، رنگ کسی کا زرد، کسی کا سرخ، کسی کا سفید، کسی کا سیاہ۔ اسی طرح تازگی اور پھل میں بھی اختلاف، حالانکہ غذا کے اعتبار سے سب یکساں ہیں۔ یہ قدرت کی نیرنگیاں ایک ہوشیار شخص کے لیے عبرت ہیں۔ اور فاعل مختار اللہ کی قدرت کا بڑا زبردست پتہ دیتی ہیں کہ جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے۔ عقل مندوں کے لیے یہ آیتیں اور یہ نشانیاں کافی وافی ہیں۔

Saturday, June 22, 2024

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

أستغفرالله

 اپنے تمام چھوٹے بڑے گناہوں اور غلطیوں کو یاد کرتے ہوئےاور دوبارہ ویسا نہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے کم از کم ایک بار دل سے پڑھیئے 


اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ كُلِّ ذَنْۢبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ
ترجمہ: میں اللہ سے اپنے تمام گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں جو میرا رب ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں .

برائی کا ارتکاب

 ارشاد باری تعالیٰ ہے

110۔ اور جو برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو وہ اللہ کو درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا پائے گا۔
111۔ اور جو برائی کا ارتکاب کرتا ہے وہ اپنے لیے وبال کسب کرتا ہے اور اللہ تو بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔
112۔ اور جس نے خطا یا گناہ کر کے اسے کسی بے گناہ کے سر تھوپ دیا تو یقینا اس نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا۔
٭سورۃ النساء ----

تفسیر آیات

گناہ کا سرزد ہو جانا بعید از امکان نہیں ۔ بسا اوقات انسان جذبات سے مغلوب ہو کر یا نادانی اور ناسمجھی سے غلطی کر بیٹھتا ہے۔ اب اس کے لئے یہ ہرگز روا نہیں کہ وہ اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش شروع کردے۔ اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ اپنے غفور ورحیم خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے قصور کا اعتراف کرے۔ اس پر صدق دل سے ندامت و شرمندگی کا اظہار کرے اور پختہ وعدہ کرے کہ آئندہ وہ ایسی نائشائستہ حرکت ہرگز نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دامن رحمت میں پناہ دے گا اور اس کے گناہوں کو بخش دے گا۔
راہ حق سے بھٹکنے والوں کے لیے باب رحمت کھلا ہے۔ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں اور اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں کے لیے وسیلۂ استغفار ہر وقت موجود ہے۔

آیت میں دو گناہوں کا ذکر ہے، برائی اور ظلم ۔ ان دونوں کا فرق بیان کرنے والے مفسرین میں بہت اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں، برائی وہ گناہ ہے جو کسی اور شخص کے ساتھ برائی کی ہو اور ظلم اپنے نفس پر کیا ہو۔ سُوۡٓءًا (برائی) سے مراد وہ زیادتی ہو سکتی ہے جو انسان دوسروں کے ساتھ کرتا ہے اور ظلم بہ نفس سے مراد احکام الٰہی کی خلاف ورزی ہے۔
یَرۡمِ:
( رم ی ) رمیٰ ۔ تیر اندازی ۔ بہتان لگانا بھی زبان کا زخم لگانا ہے، اسی لیے اسے رمیٰ بھی کہتے ہیں۔

بُہۡتَان:
ایسا الزام جسے سن کر انسان ششدر اور حیران رہ جائے۔

اس آیت میں ایک ایسے جرم کا ذکر ہے، جس کا تعلق الٰہی اقدار سے بھی ہے اور انسانی اقدار سے بھی۔ الٰہی اقدار سے متعلق اس لیے کہ یہ اللہ کے حکم کی نافرمانی اور خطا و گناہ کا ارتکاب کرنا ہے۔ انسانی اقدار سے متعلق اس لیے ہے کہ کسی گناہ کا الزام کسی بے گناہ شخص پر تھوپ دینا ہے۔

اس آیت میں بَرِیۡٓــًٔا تنوین تنکیر کے ساتھ مذکور ہے، جس کا مطلب بنتا ہے: کوئی بے گناہ۔ اس میں مذہب، قوم اور گروہ کی قید نہیں ہے۔ اگر کسی یہودی کے سر تھوپ دیا جائے تو بھی یہ صریح گناہ ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام انسانی اقدار میں سب انسانوں کو مساوی حقوق دیتا ہے اور تمام انسان اسلام کے نزدیک محترم ہیں، بشرطیکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی جرم و جاہلیت کا ارتکاب نہ کریں۔
لہٰذا اس آیت سے بہتان کے عظیم گناہ ہونے کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہتان کو گناہ تصور ہی نہیں کیا جاتا ۔


جان لو

درخت لگائیں

سوچیے

اللہ

Friday, June 14, 2024

قربانی

یوم عرفہ کا روزہ

 

– اس دن کا روزہ دوسال کے گناہوں کا کفارہ ہے :

قتادہ رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  یوم عرفہ کے روزے  کے بارے  میں فرمایا:

 یہ گزرے ہوئے اور آنے والے سال کے گناہوں کا  کفارہ  ہے۔  صحیح مسلم} ۔}

یہ روزہ حاجی کے لیے رکھنا مستحب نہیں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ررزہ ترک کیا تھا ، اوریہ بھی مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کا میدان عرفات میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ، لھذا حاجی کے علاوہ باقی سب کے لیے یہ روزہ رکھنا مستحب ہے ۔

عشرہ ذوالحجہ

اللہ سبحانہ وتعالیٰ

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

بلا شبہ

قـربانی