Thursday, June 27, 2024

بخل کرنے والا

 بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ


اَلَّـذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ وَيَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْـتُمُوْنَ مَآ اٰتَاهُـمُ اللّـٰهُ مِنْ فَضْلِـهٖ ۗ وَاَعْتَدْنَا لِلْكَافِـرِيْنَ عَذَابًا مُّهِيْنًا
جو لوگ بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بخل سکھاتے ہیں اور اسے چھپاتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے ، اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

وَالَّـذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَـهُـمْ رِئَـآءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُـوْنَ بِاللّـٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۗ وَمَنْ يَّكُنِ الشَّيْطَانُ لَـهٝ قَرِيْنًا فَسَآءَ قَرِيْنًا
اور جو لوگ اپنے مالوں کو لوگوں کے دکھانے میں خرچ کرتے ہیں اور اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے، اور جس کا شیطان ساتھی ہوا تو وہ بہت برا ساتھی ہے۔ سورۃ النساء :37-38

تفسیر آیات
خود بینی اور فخر کرنے والے کے بعد اللہ کو بخل کرنے والا نا پسند ہے۔ فیاضی ایک آفاقی اور فطری عمل ہے۔ سورج، زمین، آب اور ہوا نے اپنی فیاضی سے کائنات کو پر رونق بنایا ہے۔ اس کے خلاف بخل کرنا ایک نہایت گھٹیا عمل ہے۔جو شخص بخل کر کے دولت جمع کرتا ہے اور وہ اس عمل سے دوسروں کو بھی بخل کی تعلیم دیتا ہے کہ مال و دولت بخل سے ہی بن سکتی ہے نیز بخیل اپنی بود و باش میں فقیروں کی طرح زندگی گزارتا ہے اور اس طرح اللہ کے فضل و کرم کو وہ عملاً چھپاتا ہے۔

وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ: اس جگہ کافر سے مراد اللہ کی نعمتوں کو چھپانے والے مراد ہو سکتے ہیں۔ چونکہ کفر چھپانے کے معنوں میں ہوتا ہے۔

اللہ کے فضل کو چھپانا یہ ہے کہ آدمی اس طرح رہے گویا کہ اللہ نے اس پر فضل نہیں کیا ہے ۔ مثلاً کسی کو اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اپنی حیثیت سے گر کر رہے ۔ نہ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے ، نہ بندگان خدا کی مدد کرے ، نہ نیک کاموں میں حصہ لے ۔ لوگ دیکھیں تو سمجھیں کہ بیچارہ بڑا ہی خستہ حال ہے ۔ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی سخت ناشکری ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی خوشنودی کے موقعہ پر مال خرچ کرنے سے جی چراتے ہیں مثلاً ماں باپ کو دینا، قرابت داروں سے اچھا سلوک نہیں کرتے، یتیم مسکین پڑوسی رشتہ دار غیر رشتہ دار پڑوسی ساتھی مسافر غلام اور ماتحت کو ان کی محتاجی کے وقت فی سبیل اللہ نہیں دیتے، اتنا ہی نہیں بلکہ لوگوں کو بھی بخل اور فی سبیل اللہ خرچ نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کون سی بیماری بخل کی بیماری سے بڑھ کر ہے؟ ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ [صحیح بخاری:4383] ‏‏‏‏

پھر فرمایا یہ لوگ ان دونوں برائیوں کے ساتھ ہی ساتھ ایک تیسری برائی کے بھی مرتکب ہیں یعنی اللہ کی نعمتوں کو چھپاتے ہیں انہیں ظاہر نہیں کرتے نہ ان کے کھانے پینے میں وہ ظاہر ہوتی ہیں نہ پہننے اوڑھنے میں نہ دینے لینے میں

جیسے اور جگہ ہے
اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌ وَاِنَّهٗ عَلٰي ذٰلِكَ لَشَهِيْدٌ
العاديات:6-7 ‏‏‏‏‏‏‏‏

یعنی ” انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے اور وہ خود ہی اپنی اس حالت اور اس خصلت پر گواہ ہے “
پھر

وَاِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ ‏‏‏‏
-العاديات:8 ‏‏‏‏

وہ مال کی محبت میں مست ہے “، پس یہاں بھی فرمان ہے کہ اللہ کے فضل کو یہ چھپاتا رہتا ہے۔

۔ وَ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ: اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے تو مال خرچ کرتے ہوئے ریاکاری کی ضرور ت نہ تھی ۔ وہ رضائے خدا اور زاد آخرت کے لیے مال خرچ کر کے مال سے خوب فائدہ اٹھا سکتے تھے ، لیکن چونکہ اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور صرف اسی چند روزہ زندگی پر ایمان رکھتے ہیں ، لہٰذا مال وہ ایسی جگہ خرچ کریں گے ، جہاں ان کے خیال خام میں دنیاوی فائدہ ہے۔

۔ وَ مَنۡ یَّکُنِ الشَّیۡطٰنُ: ریا کاری ایک شیطانی خصلت ہے۔ لہٰذا ریاکار کو شیطان کی رفاقت حاصل ہے۔ چنانچہ یہ خصلت اس نے شیطان سے اخذ کی ہے۔

پھر ان کا بیان ہوا جو دیتے تو ہیں لیکن بدنیتی اور دنیا میں اپنی واہ واہ ہونے کی خاطر دیتے ہیں چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ جن تین قسم کے لوگوں سے جہنم کی آگ سلگائی جائے گی وہ یہی ریاکار ہوں گے ، ریاکار عالم ، ریاکار غازی ، ریا کار سخی ایسا سخی کہے گا باری تعالیٰ تیری ہر ہر راہ میں ، میں نے اپنا مال خرچ کیا تو اسے اللہ تعالیٰ کی جناب سے جواب ملے گا کہ تو جھوٹا ہے تیرا ارادہ تو صرف یہ تھا کہ تو سخی اور جواد مشہور ہو جائے سو وہ ہو چکا۔ [صحیح مسلم:1905] ‏‏‏‏ یعنی تیرا مقصود دنیا کی شہرت تھی وہ میں نے تجھے دنیا میں ہی دے چکا پس تیری مراد حاصل ہو چکی۔
درحقیقت وہ لوگ اللہ تعالیٰ اور آخرت پر یقین نہیں رکھتے۔ کیونکہ انکا اللہ اور آخرت پر یقین ہوتا تو یہ بطور احسان ، نمود و نمائش اور لوگوں سے خوشامد کی صورت میں اپنے صدقہ کا معاوضہ نہ لیتے۔ اگر ان کا آخرت پر یقین ہوتا تو یہ دنیا میں عارضی شہرت کی خاطر آخرت کا دائمی اجر ضائع نہ کرتے۔ اس ہلکے پن اور جلد بازی کا حقیقی سبب شیطان کا پھسلانا اور اکسانا ہے۔ شیطان تو آدمی کا بدترین ساتھی ہے۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ ضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلَ الْبَخِیْلِ وَالْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَیْنِ عَلَیْھِمَا جُبَّتَانِ مِنْ حَدِیْدٍ قَدِ اضْطُرَّتْ أَیْدِیْھِمَا إِلٰی ثَدِیِّھِمَا وَتَرَاقِیْھِمَا فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ انْبَسَطَتْ عَنْہُ حَتّٰی تَغْشٰی أَنَامِلَہٗ وََتَعْفُوَ أَثَرَہٗ وَجَعَلَ الْبَخِِیْلُ کُلَّمَا ھَمَّ بِصَدَقَۃٍ قَلَصَتْ وَأَخَذَتْ کُلُّ حَلْقَۃٍ بِمَکَانِھَا قَالَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ (رض) فَأَنَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ بِإِصْبَعِہٖ ھٰکَذَا فِيْ جَیْبِہٖ فَلَوْ رَأَیْتَہٗ یُوَسِّعُھَا وَلَا تَتَوَسَّعُ )
[ رواہ البخاری : کتاب اللباس، باب جیب القمیص من عند الصدر وغیرہ ]
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال دی کہ اس کی مثال دو آدمیوں کی طرح ہے جو ہاتھ، سینے اور حلق تک فولادی قمیض پہنے ہوئے ہوں۔ صدقہ دینے والا جب بھی صدقہ کرتا ہے تو اس کا جبہ کشادہ ہوجاتا ہے اور وہ اس کی انگلیوں تک بڑھ جاتا ہے اور قدموں کو ڈھانک لیتا ہے اور بخیل جب صدقہ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا جبہ اس سے چمٹ جاتا ہے یہاں تک ہر حلقہ اپنی جگہ پر جم جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ اپنی انگلیوں سے اپنے گریبان کی طرف اشارہ کرکے بتا رہے تھے کہ تم دیکھو گے کہ وہ اس کو کھولنا چاہے گا لیکن وہ نہیں کھلے گا۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَامِنْ یَوْمٍ یُّصْبِحُ الْعِبَادُ فِیْہِ إِلَّا مَلَکَانِ یَنْزِلَانِ فَیَقُوْلُ أَحَدُھُمَا اَللّٰھُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَیَقُوْلُ الْآخَرُ اللّٰھُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا)
[ رواہ البخاری :

کتاب الزکاۃ، باب قول اللّٰہِ تعالیٰ فأما من أعطی واتقی وصدق بالحسنیٰ ]
حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک یہ آواز لگاتا ہے اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو اور عطا فرما۔ دوسرا یہ آواز لگاتا ہے اے اللہ ! نہ خرچ کرنے والے کا مال ختم کردے۔

مسائل
١۔ بخل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ذلت آمیز عذاب دیں گے۔
٢۔ نمود و نمائش کے لیے خرچ کرنے والے شیطان کے ساتھی ہیں۔ تفسیر بالقرآن شیطان بد ترین ساتھی ہے
1۔ شیطان انسان کا دشمن ہے۔ (البقرۃ : ١٦٨)
2۔ شیطان کی رفاقت کا بدترین انجام۔ (الفرقان : ٢٧، ٢٩)
3۔ شیطان بےوفائی سکھلاتا ہے۔ (الحشر : ١٦)
4۔ شیطان بدترین ساتھی ہے۔ (النساء : ٣٨)
5۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ دشمنی کی۔
(الاعراف : ٢٠ تا ٢٢)

No comments:

Post a Comment