اللہ لطیف بعبادہ :” لطیف “ ایسی چیز جو گرفت میں نہ آسکے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ” لطیف “ اس لحاظ سے ہے کہ وہ باریک سے باریک چیز کی خبر رکھنے والا ہے اور اس لحاظ سے بھی کہ اس کی تدبیر نہایت باریک ہوتی ہے جو نظر نہیں آتی۔ اس لحاظ سے اس کا معنی طف و کرم کرنے والا بھی ہے کہ وہ ایسے باریک طریقے سے مہربانی فرماتا ہے کہ نظر ہی نہیں آتا کہ یہ کیسے ہوگئی۔ (مفردات) گویا ” لطیف “ میں دو صفتیں جمع ہیں، ایک نہایت باریک بین اور دوسری نہایت مہربانی والا۔ ان کے ضمن میں کمال علم بھی ہے جس کے بغیر باریک بینی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بندوں پر لطیف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے ان کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی مادی یا روحانی ضرورت پوشیدہ نہیں اور وہ اپنی کمال مہربانی اور باریک طریقوں سے ایسے انتظام فرماتا ہے کہ ہر بندے کی بلکہ ہر مخلوق کی ضرورت جو اس کے حسب حال ہو، پوری ہو اور اسے خبر بھی نہ ہو کہ وہ کیسے پوری ہوگئی۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ ” بعبادہ “ کا لفظ اگرچہ عام ہے مگر اس سے مراد یہاں اللہ کے مومن بندے ہیں اور بعض نے فرمایا کہ ” بعبادہ “ میں مومن و کافر دونوں شامل ہیں، دنیا میں دونوں اس کے لطف عام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، البتہ آخرت میں اس کا لطف و کرم مومنوں کیلئے خاص ہوگا۔- (٢) یرزق من یشآء : اسی لئے ان میں سے بیشمار لوگوں کو جھٹلانے اور مذاق اڑانے کے باوجود بھوکا نہیں مارتا، بلکہ ان کی تمام ضرورتیں اپنے لطف و کرم سے پوری کرتا ہے۔ مگر جسے چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے رزق دیتا ہے اور جس کی روزی کا دفتر بند کرنا چاہتا ہے کہ کردیتا ہے۔ یہ بات یہاں ذکر کرنے کی مناسبت یہ ہے کہ اکثر لوگ رزق کے پیچھے رزاق کو بھول جاتے ہیں۔- (٣) وھو القوی : یعنی وہ جو کرنا چاہیے، جسے جتنا رزق دینا چاہے اس کی پوری قوت رکھتا ہے، کسی کام میں کسی کا محتاج نہیں۔- (٤) العزیز : یعنی دوسرے تمام معاملات کی طرح رزق کے معاملے میں بھی کسی کا اس پر زور نہیں کہ وہ دینا چاہے تو کوئی اسے روک سکے، یا نہ دینا چاہے تو کوئی اس سے لے سکے۔ خبر ” القوی العزیز “ پر الف لام سے قصر پیدا ہوگیا ہے، یعنی دونوں صفتیں صرف اس میں ہیں، کسی اور میں نہیں، جیسا کہ فرمایا :(اللھم لا مابع لما اعطیت ، ولا معطی لما منعت) (بخاری ، القدر باب لامانع لما اعطی اللہ، 6625) ” اے اللہ تو جو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روک دے وہ کوئی دینے والا نہیں۔ “
.jpg)
No comments:
Post a Comment