Friday, October 31, 2025

سچی توبہ

 توبہ قبول کرنا اور گناہوں سے درگزر کرنا صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے (دیکھیے توبہ : ١٠٤) اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کیونکہ اگر وہ چاہے تو مجرم کے معافی ماگننے پر بھی اسے معاف نہ کرے۔ مقصود انھیں توبہ کی ترغیب دلانا اور کفر پر اصرار کے انجام بد سے ڈرانا ہے۔ کفر سے توبہ اسلامق بول کرنے سے ہوتی ہے اور گناہ سے توبہ میں تین چیزیں شامل ہیں، ایک پچھلے گناہ پر ندامت، دوسرا اسے ترک کردینا، تیسرا آئندہ دو گناہ نہ کرنے کا عزم اور اگر گناہ کا تعلق بندوں کے حق سے ہے تو حسب استطاعت اسے ادا کردینا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا۔ اگر آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کا عزم نہ ہو تو توبہ کا کچھ مطلب نہیں۔ ایک فارسی شاعر نے کہا ہے۔- سجہ در کف ، توبہ برلب، دل پر از ذوق گناہ معصیت را خندہ مے آیدز استغفار ما - ” ہاتھ میں تسبیح ہے، زبان پر توبہ اور دل گناہ کی لذت سے بھرا ہوا ہے، گناہ کو ہمارے استغفار پر ہنسی آتی ہے۔ “- (٢) عن عبادہ : اس میں توبہ قبول کرنے کی ایک وجہ بیان فرمئای ہے کہ گناہ کر کے توبہ کرنے والے اس کے اپنے بندے ہیں اور وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٣٧) ، آل عمران (١٣٥) اور سورة نسائ (١١٠)- (٣) ویعفوا عن السیات : توبہ مستقبل کیلئے قبول ہوتی ہے اور برائیاں گزشتہ معاف کردی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسا کریم ہے کہ توبہ پر گزشتہ تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے، بلکہ سورة فرقان کی آیت (٧٠) کے مطابق توبہ کرنے والوں کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ بندے کی توبہ پر اللہ تعالیٰ کس قدر ہوتا ہے، اس کی تفصیل انس (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرمائی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(للہ اشد فرحا بتوبۃ عبدہ حین یتوب الیہ من احدکم کان علی راحلتہ بارض فلاۃ فانفلت منہ، وعلیھا، طعامہ و شرابہ فابس منھا، فنی شجرۃ فاضطجع فی ظلھا قد ابس من راحلتہ فبینا ھو جذلک اذا ھو بھا قائمۃ عندہ فاخذ بخطامھا تم قال من شدۃ الفرح اللھم انت عبدی واناربک اخطا من شدۃ الفرح) (مسلم، التوبۃ باب فی الحض علی التوبۃ و الفرح بھا :2888” یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر، جب وہ اس کی طرف توبہ کرتا ہے، اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا تم میں سے کوئی شخص خوش ہوتا ہے، جو کسی بیابان میں اپنی اونٹنی پر سوار تھا تو وہ اس سے چھوٹ کر نکل گئی، اس کا کھانا اور پانی بھی اسی پر تھا۔ تو وہ اس سے ناامید ہوگیا اور ایک درخت کے پاس جا کر اس کے سائے میں لیٹ گیا۔ حال اس کا یہ تھا کہ وہ اپنی اونٹنی سے مایوس ہوچکا تھا، وہ اسی حالت میں تھا کہ اچانک اس نے اسے دیکھا کہ اونٹنی اس کے پاس کھڑی تھی، چناچہ اس نے اس کی مہار پکڑ لی، پھر شدید خوشی میں کہنے لگا :” اے اللہ تو میرا بندہ اور میں تیرا رب۔ “ خوشی کی شدت سے غلطی کر بیٹھا۔ “- (٤) اللہ تعالیٰ اتنا مہربان ہے کہ بعض اوقات توبہ کے بغیر بھی گناہ معاف فرما دیتا ہے، جیسا کہ ہجرت کے بعد پہلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، حج مبرور کے بعد پہلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اور نیکیوں کی کثرت سے گناہ مٹ جاتے ہیں، جیسا کہ فرمایا :(ان الحسنت یذھبن السیات) (ھود : ١١٣)” بیشک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ “ اور کبیرہ گناہوں کے اجتناب سے صغیرہ گناہ خود بخود معاف ہوجاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ کبیرہ گناہ کے مرتکب مومن کو، اگر وہ توبہ نہ کرے تو کافر یا ابدی جہنمی قرار دیتے ہیں، ان کی بات درست نہیں۔- (٥) ویعلم ماتفعلون : اس جملے میں بشارت بھی ہے اور نذرات بھی۔ عمل کا داور م دار دل کی حلات پر ہے، اگر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اخلاص سے توبہ کی گئی ہے تو نص - اسے جانتا ہے اور اسے قبولیت سے نوازے گا اور اگر توبہ اپنے کسی دنیوی مقصد کے لئے کی گئی ہو، مثلاً ریا کے طور پر یا آئندہ توڑ ڈالنے کے ارادے سے، یا کسی دنیوی فائدے کے لئے مثلاً صحت و قوت کے لئے زنا، سگریٹ یا شراب کو ترک کیا گیا ہے تو وہ اسے بھی جانتا ہے۔

No comments:

Post a Comment