آیت ٣٣ ( وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ )- ان تمام چیزوں کے گنوانے سے انسان کو یہ جتلانا مقصود ہے کہ زمین کے دامن اور آسمان کی وسعتوں میں اللہ کی تمام تخلیقات اور فطرت کی تمام قوتیں مسلسل انسان کی خدمت میں اس کی نفع رسانی کے لیے مصروف کار ہیں اور وہ اس لیے کہ اس کائنات میں انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جو سب مخلوقات سے اعلیٰ ہے۔ اللہ نے یہ بساط کون و مکان انسان ہی کے لیے بچھائی ہے اور باقی تمام اشیاء کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کی ضروریات پوری کریں۔ یہی بات سورة البقرۃ کی آیت ٢٩ میں اس طرح بیان فرمائی گئی ہے : (ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا) یعنی یہ زمین میں جو کچھ بھی نظر آ رہا ہے یہ اللہ نے تمہارے (انسانوں کے ) لیے پیدا کیا ہے۔ اور ان چیزوں کو تمہاری ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مسخر کردیا ہے ۔
کہ ہم نے تمہارے لئے سورج اور چاند کو مسخر کردیا کہ یہ دونوں ہمیشہ ایک حالت پر چلتے ہی رہتے ہیں دائبین داب سے مشتق ہے جس کے معنی عادت کے ہیں مراد یہ ہے کہ ہر وقت اور ہر حال میں چلنا ان دونوں سیاروں کی عادت بنادی گئی کہ کبھی اس کے خلاف نہیں ہوتا مسخر کرنے کے یہ معنی نہیں کہ وہ تمہارے حکم اور اشاروں پر چلا کریں کیونکہ اگر شمس وقمر کو اس طرح انسان کا مسخر کردیا جاتا کہ وہ انسانی حکم کے تابع چلا کرتے تو انسانوں کے باہمی اختلاف کا یہ نتیجہ ہوتا کہ ایک انسان کہتا کہ آج آفتاب دو گھنٹے بعد نکلے کیونکہ رات میں کام زیادہ ہے دوسرا چاہتا کہ دو گھنٹے پہلے نکلے کہ دن کے کام زیادہ ہیں اس لئے رب العزت جل شانہ نے آسمان اور ستاروں کو انسان کا مسخر تو بنایا مگر اس معنی سے مسخر کیا کہ وہ ہر وقت ہر حال میں حکمت خداوندی کے ماتحت انسان کے کام میں لگے ہوئے ہیں یہ نہیں کہ ان کا طلوع و غروب اور رفتار انسان کی مرضی کے تابع ہوجائے،- اسی طرح یہ ارشاد کہ ہم نے رات اور دن کو تمہارے لئے مسخر کردیا اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ان دونوں کو انسان کی خدمت اور راحت کے کام میں لگا دیا

No comments:
Post a Comment