من کان یرید حرث الاخرۃ…: اللہ تعالیٰ نے دنیا کو آدمی کے لئے کھیت بنایا ہے ، وہ اس میں جو بوئے گا وہی کاٹے گا اور جس چیز کا ارادہ کرے گا وہی ملے گی۔ اسی طرح اس نے دنیا کو تجارت کی جگہ بنایا ہے، اگر خیر کا سودا کرے گا تو نفع میں خیر ملے گی، اگر شر کا سودا کرے گا تو نتیجہ میں شر پائے گا۔ اسی طرح دنیا کو آخرت کا راستہ بنایا ہے، اگر خیر کے راستے پر چلے گا توم نزل مراد پالے گا اور ہمیشہ کی جنت میں پہنچ جائے گا، اگر شر کے راستے پر چلے گا تو ہمیشہ کے عذاب اور انفسھم و اموالھم با ن لھم الجنۃ ) (التوبۃ : ١١١)” بیشک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لئے ہیں، اس کے بدلے کہ ان کے لئے جنت ہے۔ “ اور فرمایا :(ومن الناس من یشری نفسہ ابتغآء مرضات اللہ) (البقرۃ :208) ” اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو اللہ کی رضا مندی تلاش کرنے کے لئے اپنی جان بیچ دیتا ہے۔ “ اور فرمایا :(اولئک الذین اشتروا الحیوۃ الدنیا بالاخرۃ) (البقرہ : ٨٦) ” یہی لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے خریدی۔ “- (٢) پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے رزق کا قانون بیان فرمایا کہ وہ سب کے لئے یکساں نہیں، وہ جسے چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے دیتا ہے اور اس میں اس کی بیشمار حکمتیں ہیں۔ (دیکھیے زخرف : ٣٢) اس آیت میں فرمایا کہ آدمی کی کوشش اور نیت کے مختلف ہونے کے لحاظ سے بھی اسے ملنے والا رزق مختلف ہے۔- (٣) آخرت کی کھیتی کا ارادہ رکھنے والے کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ اسے دنیا میں کچھ نہیں ملے گا۔ دنیا تو نیک ہو یا بد ہر ایک کو تھوڑی یا زیادہ ملنی ہی ملنی ہے، آخرت کے متعلق بشارت دی کہ ہم اس کے لئے اس کی کھیتی میں اضافہ کریں گے، کیونکہ اس کی نیت اور کوشش اسی کی ہے۔ اضافہ یہ ہے کہ دنیا میں اسے مزید نیکیوں کی توفیق دیں گے اور آخرت میں ایک نیکی کو دس گنا سے ہز اورں لاکھوں تک بلکہ شمارے بھی زیادہ بڑھائیں گے اور دائمی نعمتیں عطا کریں گے، جیسا کہ فرمایا :(ومن اراد الاخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مومن فاؤلئک کان سعیھم مشکوراً (بنی اسرائیل : ١٩) ” اور جس نے آخرت کا ارادہ کیا اور اس کے لئے کوشش کی جو اس کے لائق کوشش ہے، جب کہ وہ مومن ہو تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش ہمیشہ سے قدر کی ہوئی ہے۔ “- (٤) ومن کان یرید حرث الدنیا نوتہ منھا …:” منھا “ میں ” من “ تبعیض کے لئے ہے۔ یعنی جو شخص دنیا کی کھیتی کا ارادہ کرے گا اور دنیا ہی کے لئے کوشش اور محنت کرے گا، ایک تو یہ کہ اسے وہ نہیں ملے گا جو وہ چاہتا ہے بلکہ ہم اسے اس میں سے کچھ حصہ ہی دیں گے، دوسرا یہ کہ وہ حصہ بھی ہم دنیا ہی میں دے دیں گے، آخرت میں اس کیلئے کوئی حصہ نہیں، کیونکہ آخرت کی نیت سے اس نے کچھ کیا ہی نہیں۔ یہی بات ایک اور آیت میں یوں بیان فرمائی :(من کان یرید العاجلہ عجلنا لہ فیھا مانشآء لمن نریدثم جعلنا لہ جھنم یصلھا مذموماً مدحوراً ) (بنی اسرائیل : ١٨) ” جو شخص اس جلدی والی صدنیا) کا ارادہ رکھتا ہو ہم اس کو اس میں جلدی دے دیں گے جو چاہیں گے، جس کے لئے چاہیں گے، پھر ہم نے اس کے لئے جہنم بنا رکھی ہے، اس میں داخل ہوگا، مذمت کیا ہوا، دھتکارا وہا۔ “ اور فرمایا :(فمن الناس من یقول ربنا اتنا فی الدینا وما لہ فی الاخرۃ من خلاق) (البقرۃ : ٢٠٠) ” پھر لوگوں میں سے کوئی تو وہ ہے جو کہتا ہے اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں دے دے اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ “

No comments:
Post a Comment