Sunday, May 26, 2024

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

مکڑی کا جالا

جو لوگ اللہ تعالیٰ رب العالمین کے سوا، اوروں کی پرستش اور پوجاپاٹ کرتے ہیں،  ان کی کمزوری اور بےعلمی کا بیان ہو رہا ہے۔ یہ ان سے مدد ،   روزی اور سختی میں کام آنے کے امیدوار رہتے ہیں۔
ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی مکڑی کے جالے میں بارش اور دھوپ اور سردی سے پناہ چاہے۔ اگر ان میں علم ہوتا تو یہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے امیدیں وابستہ نہ کرتے۔  پس ان کا حال ایمانداروں کے حال کے بالکل برعکس ہے۔ وہ ایک مضبوط کڑے کو تھامے ہوئے ہیں اور یہ مکڑی کے جالے میں اپنا سرچھپائے ہوئے ہیں۔ اس کا دل اللہ کی طرف ، اس کا جسم اعمال صالحہ کی طرف مشغول ہے اور اس کا دل مخلوق کی طرف اور جسم اس کی پرستش کی طرف جھکا ہوا ہے۔

نفس

اللہ سے ضد

نیکی رائیگاں نہیں جاتی

 ❁☆ ۔۔ نیکی رائیگاں نہیں جاتی ۔۔ ❁☆


ایک پینٹر کو ایک کشتی پر رنگ کرنے کا ٹھیکہ ملا۔
کام کے دوران اُسے کشتی میں ایک سوراخ نظر آیا اور اُس نے اِس سوراخ کو بھی مرمت کر دیا۔
پینٹنگ مکمل کر کے شام کو آس نے کشتی کے مالک سے اپنی اُجرت لی اور گھر چلا گیا۔

دو دن بعد کشتی والے نے اُسے پھر بلایا اور ایک خطیر رقم کا چیک دیا۔
پینٹر کے استفسار پر اُس نے بتا یا کہ اگلے دن آس کے بچّےبغیر اُس کے علم میں لائے کشتی لے کر سمندر کی طرف نکل گئے۔ اور پھر جب اُسے خیال آیا کہ کشتی میں تو ایک سُوراخ بھی تھا تو وہ بہت پریشان ہوگیا۔ ۔۔۔۔۔۔

لیکن شام بچّوں کوہنستے مسکراتے آتے دیکھا تو خوشگوار حیرت میں مبتلا ھو گیا۔ اُس نے پینٹر سے کہا کہ یہ رقم تمہارے احسان کا بدل تو نہیں مگر میری جانب سے تمہارے لیئے محبت کا ایک ادنیٰ اظہار ہے۔۔۔۔

آپ کی زندگی میں بھی بہت سےایسے چھوٹے چھوٹے کام آئیں گے جو آپ کے کام نہیں ۔۔۔۔
مگر وہ کام بھی کرتے جائیے۔۔۔۔۔۔


نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی ،
کسی نہ کسی کی زندگی بچاتی ہے ۔
کسی نہ کسی کی خوشیوں کا باعث بنتی ہے۔


❁☆۔ مثبت سوچ اور مثبت کردار ہی کامیابی ہے. ❁☆


Tuesday, May 21, 2024

ســوال

شرک

مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ: اس کے بعد بت پرستوں کے نظریات کے بطلان اور بے حقیقت ہونے کی طرف اشارہ فرمایا کہ جن غیر اللہ کی تم عبادت کرتے ہو وہ ایک بے مفہوم الفاظ، بے معنی عبارت اور اسم بے مسمی ہیں۔ صرف تمہارے باپ دادا کی ذہنی اختراع ہیں کہ کسی کو آسمانوں کا رب، کسی کو زمین کا مالک اور کسی کو صحت و مرض کا رب، کسی کو نعمتوں کا پروردگار وغیرہ کہتے ہو۔ حقائق وہ ہیں جن کی سند اللہ کی طرف سے آئے۔

إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ: اس کائنات میں ایک قہار رب کے علاوہ کسی اور کی قہاریت نہیں ہے۔ لہٰذا اقتدار اعلیٰ صرف اسی کے پاس ہے۔ وہی احکام جاری کر سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے یہ حکم جاری کیا ہے کہ کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔

ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ: اور بتایا ہے کہ ایک خدا کی پرستش ہی مستحکم دین ہے کہ کسی شک و تردید سے متزلزل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ دین حقیقی بنیادوں پر استوار ہے۔


دشمن

Saturday, May 18, 2024

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

موت اٹل حقیقت


 موت اٹل حقیقت
موت سے تو کوئی بچ ہی نہیں سکتا
جیسے سورۃ نساء میں ہے

اَيْنَمَا تَكُـوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُـمْ فِىْ بُـرُوْجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ
النساء:78

(تمہیں موت کا خوف ہے) تم جہاں کہیں بھی ہو خواہ
تم مضبوط قلعوں میں بند رہو موت تمہیں آ لے گی


موت ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے کسی نبی مرسل اور مقرب فرشتوں کو بھی خلاصی ملنا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے حاضر ہونا بھی اللہ کا اٹل فیصلہ ہے کہ کوئی مجرم خواہ اس 
کا تعلق کسی بھی نسل اور اصل سے ہو اس جوابدہی سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

بے شک

ہمارے معاشرے میں

حضرت آدم علیہ السلام کی دعاء


 حضرت آدم علیہ السلام کی دعاء

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے


سورۃ الاَعراف - آیت 23

توبہ و استغفار کے یہ وہی کلمات ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے سیکھے تھے۔ شیطان نے جب اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تو اس کے بعد نہ صرف وہ اس پر اڑ گیا، بلکہ اس کے جواز و اثبات میں عقلی و قیاسی دلائل بھی دینے لگا۔ نتیجتاً وہ راندۃ درگاہ اور ہمیشہ کے لیے ملعون قرار پایا۔ اور حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی غلطی پر ندامت و پریشانی کا اظہار اور بارگاہ الہی میں توبہ و استغفار کا اہتمام کیا ، تو اللہ کی رحمت و مغفرت کے مستحق قرار پائے۔ یوں گویا دونوں راستوں کی نشاندہی ہو گئی۔

شیطانی راستے کی بھی اور اللہ والوں کے راستے کی بھی ۔ گناہ کر کے اس پر اترانا ، اصرار کرنا اور اس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے "دلائل " کے انبار فراہم کرنا شیطانی راستہ ہے۔ اور گناہ کے بعد احساس ندامت سے مغلوب ہو کر بارگاہ الہی میں جھک جانا اور توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا بندگان الہی کا راستہ ہے۔

ترجمہ : "مولانا محمد جونا گڑھی
تفسیر: مولانا صلاح الدین یوسف

واضح کتاب

زندگی انمول ہے

نیکی

علم غیب اور حاکمیت اعلیٰ


علم غیب اور حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ ہی کو سزاوار ہے

 آسمان و زمین کے ہر غیب کو جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ عزوجل ہی ہے۔ اسی کی سب کو عبادت کرنی چاہیئے اور اسی پر بھروسہ کرنا چاہیئے۔ جو بھی اس پر بھروسہ رکھے وہ اس کے لیے کافی ہے۔

اللہ کا قرب

ہمیشہ یاد رکھیں

اوقات نماز کی نشاندہی

 اوقات نماز کی نشاندہی 


سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کہتے ہیں دن کے دونوں سرے سے مراد صبح کی اور مغرب کی نماز ہے۔‏‏‏‏ قتادہ، ضحاک رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا قول ہے کہ پہلے سرے سے مراد صبح کی نماز اور دوسرے سے مراد ظہر اور عصر کی نماز رات کی گھڑیوں سے مراد عشاء کی نماز۔ بقول مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ مغرب و عشاء کی۔‏‏‏‏
 [تفسیر ابن جریر الطبری:18648:مرسل] ‏‏‏‏ نیکیوں کو کرنا گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے۔
سنن میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس مسلمان سے کوئی گناہ ہو جائے پھر وہ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھ لے، تو اللہ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔
 [سنن ابوداود:1521، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏
ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کیا پھر فرمایا اسی طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو میرے اس وضو جیسا وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے، جس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اس کے تمام اگلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔ [صحیح بخاری:159] ‏‏‏‏
مسند میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے پانی منگوایا، وضو کیا، پھر فرمایا میرے اس وضو کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کیا کرتے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو میرے اس وضو جیسا وضو کرے اور کھڑا ہو کر ظہر کی نماز ادا کرے، اس کے صبح سے لے کر اب تک کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، پھر عصر کی نماز پڑھے، تو ظہر سے عصر تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں، پھر مغرب کی نماز ادا کرے، تو عصر سے لے کر مغرب تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ پھر عشاء کی نماز سے مغرب سے عشاء تک کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ سوتا ہے لوٹ پوٹ ہوتا ہے پھر صبح اُٹھ کر نماز فجر پڑھ لینے سے عشاء سے لے کر صبح کی نماز تک کے سب گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ یہی ہیں وہ بھلائیاں جو برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔ [مسند احمد:71/1:صحیح] ‏‏‏‏

صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بتلاؤ تو اگر تم میں سے کسی کے مکان کے دروازے پر ہی نہر جاری ہو اور وہ اس میں ہر دن پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس کے جسم پر ذرا سی بھی میل باقی رہ جائے گا؟، لوگوں کے نے کہا ہرگز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بس یہی مثال ہے۔ پانچ نمازوں کی کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ خطائیں اور گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔ 
[صحیح بخاری:528] ‏‏‏‏
صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پانچوں نمازیں اور جمعہ جمعہ تک اور رمضان رمضان تک کا کفارہ ہے جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے ۔ [صحیح مسلم:233] ‏‏‏‏
مسند احمد میں ہے ہر نماز اپنے سے پہلے کی خطاؤں کو مٹا دیتی ہے ۔ [مسند احمد:413/5:حسن] ‏‏‏‏
ابوعثمان رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ انہوں نے ایک درخت کی خشک شاخ پکڑ کے اسے جھنجھوڑا تو تمام خشک پتے جھڑ گئے پھر فرمایا ابوعثمان تم پوچھتے نہیں ہو کہ میں نے یہ کیوں کیا؟ میں نے کہا ہاں جناب ارشاد ہو، فرمایا اسی طرح میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، پھر فرمایا: جب بندہ مسلمان اچھی طرح وضو کر کے پانچوں نمازیں ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ ایسے ہی چھڑ جاتے ہیں جیسے اس خشک شاخ کے پتے جھڑ گئے۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ [مسند احمد:437/5:حسن] ‏‏‏‏
مسند میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں برائی اگر کوئی ہو جائے تو اس کے پیچھے ہی نیکی کر لو کہ اسے مٹا دے۔ اور لوگوں سے خوش اخلاقی سے ملا کرو ۔ [مسند احمد:228/5:حسن] ‏‏‏‏
اور حدیث میں ہے جب تجھ سے کوئی گناہ ہو جائے تو اس کے پیچھے ہی نیکی کر لیا کر تاکہ یہ اسے مٹا دے میں نے کہا: یا رسول اللہ! کیا «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» پڑھنا بھی نیکی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو بہترین اور افضل نیکی ہے ۔ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:361/3:حسن] ‏‏‏‏

شرک کی طرف نہ جھکو

استقامت کی ہدایت 


استقامت اور سیدھی راہ پر دوام، ہمیشگی اور ثابت قدمی کی ہدایت اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمانوں کو کر رہا ہے۔ یہی سب سے بڑی چیز ہے۔ ساتھ ہی سرکشی سے روکا ہے کیونکہ یہی توبہ کرنے والی چیز ہے گو کسی مشرک ہی پر کی گئی ہو۔
پرودگار بندوں کے ہر عمل سے آگاہ ہے مداہنت اور دین کے کاموں میں سستی نہ کرو۔ شرک کی طرف نہ جھکو۔ مشرکین کے اعمال پر رضا مندی کا اظہار نہ کرو۔ ظالموں کی طرف نہ جھکو۔ ورنہ آگ تمہیں پکڑ لے گی۔ ظالموں کی طرف داری ان کے ظلم پر مدد ہے یہ ہرگز نہ کرو۔ اگر ایسا کیا تو کون ہے جو تم سے عذاب اللہ ہٹائے؟ اور کون ہے جو تمہیں اس سے بچائے۔

Saturday, May 11, 2024

صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

تیرا رب

قیــامت ڪے لئیـے ڪیا تیـاری ڪی ہـے۔

 

 #جہنــــم_ســـے_نَــجات ____!!


اللّٰــــهِﷻ جـو ڪہ قہـار ہـے اِسـ‌ں نے اپنے جَـــلال ڪے ثبــوت ڪیلئیے جہنـــم بنـائی ہـے۔جِـــس میـــں آگـــــ ڪے الاؤ گُنــاہـگاروں ڪی سَــزا ڪے لئیـے جـــلائـے گـے ہیـــں ۔ جِــس ڪی تَپــش دُنیــا سـے ہـــزاروں گُنـــا زیادہ ہــو گـی۔

جہنــــم ڪا ایڪ دن دُنیــا ڪے سینڪڑوں دِنـوں سـے زیـادہ طـویل ہـو گـا۔ اور اِسـں آگـــــ ڪا اینــدھن وہ لوگـــــ بنیـں گـے جنہوں نـے دُنیـا ڪی زِنــدگی اللّٰــــهِﷻ ڪی نَــافرمـانی میں گُــزاری۔

⁩ #میـرـے_مُعــزز_بھـائیـوں_اور_بہنــوں ___!!!

دیڪھئیے ہَــم ڪبھی اپنـے رشتـے داروں ڪے گھــر جــائیـں تو ہَمــاری ڪـوشِشــں ہـوتـی ہـے ڪہ ہَـــم اچھا لِبـاسـں پہـن ڪر جــائیـں تاڪہ ہمیـــں ڪوئی بــات نـہ ڪرے اُن ڪیلئیے اچھا فَـروٹ یا ڪوئی گِــفٹ لـے ڪر جــائیـں تاڪہ ہَــماری تـعریفــــ ہو ۔ بِلکل ایسـا ہـی ہـے نــا _!!!!

⁩ #تُـــو_پِھــر_اے_لوگـــوں _!!

ایڪ دِن ہَـــم سب ڪو اللّٰـــهِ ڪے پـــــاس بھی جــانـا ہـے اُس ڪے پَـــاس لے جـانـے ڪو ہَمـارـے پَــــاس ڪیا ہـے؟ ڪیا دے گـے اپنـے اللّٰـــــهَ ڪو وہـاں جـا ڪر ؟ ڪیا کہیے گـے ہَـــم اپنـے اللّٰـــهَ سـے ڪہ دُنیــا میں سـے ہَــم ڪیا لائـــے ؟

ہَــم نـے دُنیـا میں ڪیا ڪمایـا ہـے بس اتنـا ظُلــم و سِتم ڪرنا، جھـوٹ بولنا ، زِنــا، دھوکہ دینـا، ڪِسی ڪا حَـق ڪھانا، ماؤں بہنوں ڪی عِـزت نـہ ڪرنا، یـہ تمـام بـڑائیـاں جہنــم ڪا سبب ہیـں۔

#جہنــــم_سـے_نَـــجات_ڪیلئیے

ہَــم سب ڪو اچھــے اعمـال ڪی ضــرورت ہـے اللّٰـــهِ ڪے بتـائـے ہـوئے راستـــے پـر چَلنـے ڪی ضــرورت ہـے۔ اللّٰــهَ ڪا راستـــہ ہمیں جَنـت میں لـے ڪر جـائـے گـا اور جـو اِســں راستـے ســـے بھٹـڪا اُس ڪا ٹھــڪانہ جہنـــم ہـے۔

#فــرمـــانِ_الٰہـــی ___!!

وَلْتَنْــظُرْ نَفْسٌـــں مَّـــا قَــدَّمَتْ لِغَــــدٍ
ہَــر شَـخص یـہ دیڪھ لـے ڪہ اِســں نـے قیــامت ڪے لئیـے ڪیا تیـاری ڪی ہـے۔

قیامت کب اور کس وقت؟

 قیامت کب اور کس وقت؟ 


یہ دریافت کرنے والے قریشی بھی تھے اور یہودی بھی۔ لیکن چونکہ یہ آیت مکی ہے اس لیے ٹھیک یہی ہے کہ قریشیوں کا سوال تھا چونکہ وہ قیامت کے قائل ہی نہ تھے، اس لیے اس قسم کے سوال کیا کرتے تھے کہ 
«وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ»
 [21-الأنبياء:38]
 ‏‏‏‏ ” اگر سچے ہو تو اس کا ٹھیک وقت بتا دو۔ “
«يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ»
 [42-الشورى:18] ‏‏‏‏ 
” ادھر بےایمان اس کی جلدی مچا رہے ہیں، ادھر ایماندار اسے حق جان کر اس سے ڈر رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جنہیں اس میں بھی شک ہے، دوردراز کی گمراہی میں تو وہی ہیں۔ “
«يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّـهِ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا» 
[33-الأحزاب:63]
 ‏‏‏‏ ” پوچھا کرتے تھے کہ قیامت واقع کب ہو گی؟ جواب سکھایا گیا کہ اس کے صحیح وقت کا علم سوائے اللہ کے، کسی کو نہیں۔ “
وہی اس کے صحیح وقت سے واقف ہے، بجز اس کے، کسی کو اس کے واقع ہونے کا وقت معلوم نہیں۔ اس کا علم زمین و آسمان پر بھی بھاری ہے، ان کے رہنے والی ساری مخلوق اس علم سے خالی ہے۔ وہ جب آئے گی، سب پر ایک ہی وقت واقع ہو گی، سب کو ضرر پہنچے گا۔
آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے، سورج بے نور ہو جائے گا، پہاڑ اڑنے لگیں گے۔ اسی لیے وہ ساری مخلوق پر گراں گزر رہی ہے۔ اس کے واقع ہونے کے صحیح وقت کا علم ساری مخلوق پر بھاری ہے، زمین و آسمان والے سب اس سے عاجز اور بےخبر ہیں۔ وہ تو اچانک سب کی بے خبری میں ہی آئے گی۔
کوئی بزرگ سے بزرگ فرشتہ، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر بھی اس کے آنے کے وقت کا عالم نہیں۔ وہ تو سب کی بے خبری میں ہی آ جائے گی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: دنیا کے تمام کام حسب دستور ہو رہے ہوں گے، جانوروں والے اپنے جانوروں کے پانی پینے والے حوض درست کر رہے ہوں گے، تجارت والے ناپ تول میں مشغول ہوں گے، قیامت آ جائے گی۔
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ قیامت قائم ہونے سے پہلے سورج مغرب کی طرف سے نکلے گا، اسے دیکھتے ہی سب لوگ ایمان قبول کر لیں گے۔ لیکن اس وقت کا ایمان ان کے لیے بےسود ہو گا۔
جو اس سے پہلے ایمان نہ لائے ہوں اور جنہوں نے اس سے پہلے نیکیاں نہ کی ہوں۔ قیامت اس طرح دفعتاً آ جائے گی کہ ایک شخص کپڑا پھیلائے دوسرے کو دکھا رہا ہو گا اور دوسرا دیکھ رہا ہو گا، بھاؤ تاؤ ہو رہا ہو گا کہ قیامت واقع ہو جائے گی۔ نہ یہ خرید و فروخت کر سکیں گے، نہ کپڑے کی تہہ کر سکیں گے۔ کوئی دودھ دوہ کر آ رہا ہو گا، پی نہ سکے گا کہ قیامت آ جائے گی۔ کوئی حوض درست کر رہا ہو گا، ابھی جانوروں کو پانی نہ پلا چکا ہو گا کہ قیامت آ جائے گی۔ کوئی لقمہ اٹھائے ہوئے ہو گا، ابھی منہ میں نہ ڈالا ہو گا کہ قیامت آ جائے گی۔ [صحیح بخاری:6506] ‏‏‏‏
صحیح مسلم شریف میں ہے: آدمی دودھ کا کٹورا (‏‏‏‏برتن) اٹھا کر پینا چاہتا ہی ہو گا، ابھی منہ سے نہ لگا پائے گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔ کپڑے کے خریدار بھی سودا نہ کر چکے ہوں گے کہ قیامت آ جائے گی۔ حوض والے بھی لیپاپوتی کر رہے ہوں گے کہ قیامت برپا ہو جائے گی۔
تجھ سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا تو ان کا سچا رفیق ہے، یہ تیرے پکے دوست ہیں۔ اس طرح پوچھتے ہیں گویا کہ تجھے اس کا حال معلوم ہے حالانکہ کسی مقرب فرشتے یا نبی یا رسول کو اس کا علم ہرگز نہیں۔
قریشیوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نبی کریم
 صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو آپ کے قرابت دار ہیں، ہمیں تو بتا دیجئے کہ قیامت کب اور کس دن، کس سال آئے گی؟ اس طرح پوچھا کہ گویا آپ کو معلوم ہے۔ حالانکہ اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہی ہے۔ جیسے فرمان ہے: 
«إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ»
 [31-لقمان:34]
 ‏‏‏‏ ” قیامت کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ “
یہی معنی زیادہ ترجیح والے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

جبرائیل علیہ السلام نے بھی جب اعرابی کا روپ دھار کر سائل کی شکل میں آپ کے پاس بیٹھ کر آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف جواب دیا کہ اس کا علم نہ مجھے ہے، نہ تجھے۔ اس سے پہلے کے سوالات آپ بتا چکے تھے، اس سوال کے جواب میں اپنی لاعلمی ظاہر کر کے پھر سورۃ لقمان کی آخری آیت پڑھی کہ ان پانچ چیزوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یعنی علم قیامت، بارش کا آنا، مادہ کے پیٹ کے بچے کا حال، کل کے حالات، موت کی جگہ۔ ہاں! جب انہوں نے اس کی علامتیں پوچھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیں۔ پھر آپ نے اسی آیت کو تلاوت فرمایا، جبکہ جبرائیل علیہ السلام آپ کے ہر جواب پر یہی فرماتے جاتے تھے کہ آپ نے سچ فرمایا۔ ان کے چلے جانے کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم نے تعجب سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کون صاحب تھے؟ آپ نے فرمایا: جبرائیل علیہ السلام تھے، تمہیں دین سکھانے آئے تھے۔ [صحیح بخاری:50] ‏‏‏‏
جب کبھی وہ میرے پاس جس شکل میں بھی آئے، میں نے انہیں پہچان لیا لیکن اس مرتبہ تو میں خود اب تک نہ پہچان سکا تھا۔
ایک اعرابی نے آ کر با آواز بلند آپ کا نام لے کر آپ کو پکارا، آپ نے اسی طرح جواب دیا۔ اس نے کہا: قیامت کب ہو گی؟
آپ نے فرمایا: وہ آنے والی تو قطعاً ہے۔ تو بتا، تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ روزے نماز تو میرے پاس زیادہ نہیں۔ البتہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے اپنے دل کو لبریز پاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: انسان اسی کے ہمراہ ہو گا جس سے محبت رکھتا ہو۔ 
[صحیح بخاری:6567] ‏‏‏‏
مومن اس حدیث کو سن کر بہت ہی خوش ہوئے کہ اس قدر خوشی انہیں اور کسی چیز پر نہیں ہوئی تھی۔
آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی آپ سے ایسا سوال کرے جس کی ضرورت نہ ہو تو آپ اسے وہ بات بتاتے جو اس سے کہیں زیادہ مفید ہو۔ اسی لیے اس سائل کو بھی فرمایا کہ وقت کا علم کیا فائدہ دے گا؟ ہو سکے تو تیاری کر لو۔
صحیح مسلم میں ہے کہ اعراب لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کبھی قیامت کے بارے سوال کرتے تو آپ جو ان میں سب سے کم عمر ہوتا، اسے دیکھ کر فرماتے کہ اگر یہ اپنی طبعی عمر تک پہنچا تو اس کے بڑھاپے تک ہی تم اپنی قیامت کو پالو گے۔ اس سے مراد ان کی موت ہے جو آخرت کے برزخ میں پہنچا دیتی ہے۔ [صحیح بخاری:6511] ‏‏‏‏
صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میں اور قیامت اس طرح آئے ہیں اور آپ نے اپنی دونوں انگلیاں جوڑ کر بتائیں یعنی شہادت کی انگلی اور اس کے پاس کی انگلی۔ [صحیح بخاری:6504] ‏‏‏‏ لیکن باوجود اس کے، قیامت کا علم آپ کو نہ تھا۔
صلی اللہ علیہ وسلم سے جب سوال ہوا تو یہی حکم ملا، جواب دو کہ 
«يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا فِيمَ أَنتَ مِن ذِكْرَاهَا إِلَىٰ رَبِّكَ مُنتَهَاهَا» 
[79-النازعات:42]
 ‏‏‏‏ ” اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے لیکن اکثر لوگ بےعلم ہیں۔ “

بےشک

دنـیا

والدین کی خدمت

 والدین کی خدمت

----------------

ارشاد باری تعالی ہے:

◄ وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا ۚ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَـرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّـهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْـهَرْهُمَا وَقُلْ لَّـهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا –

ترجمہ: اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو۔ 
(سورۂ بنی اسرائیل: 23)

ماں باپ کی خدمت گزاری اور اطاعت و فرماں برداری اولاد کی اولین ذمہ داری ہے-

◄ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کی ناک غبار آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی ذلیل و رسوا ہو)۔ کسی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟ حضور نے فرمایا کہ جس نے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔
مسلم، الصحيح، کتاب البر و الصلة، باب رعم أنف من أدرک أبويه، 4 : 1978، رقم : 2551


ماں باپ کی اصل طاقت ان کی نیک اولاد ہے۔ ماں باپ کمزور، بیمار اور بوڑھے تب ہی ہوتے ہیں جب ان کی اپنی اولاد ان کو پریشان رکھتی ہو

لہٰذا ماں باپ کی عزت کرو، ان کی ضروریات کا خیال رکھو تا کہ آپ کی اولاد آپ 

کی عزت کرے ، کیونکہ جو آپ کریں گے وہی آپ کے ساتھ ہوگا۔