بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
وَ لَئِنۡ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَۃً ثُمَّ نَزَعۡنٰہَا مِنۡہُ ۚ اِنَّہٗ لَیَـُٔوۡسٌ کَفُوۡرٌاور اگر ہم انسان کو اپنے پاس سے نعمت بخشیں پھر اس سے اس کو چھین لیں تو ناامید (اور) ناشکرا (ہوجاتا) ہے۔
سورۃ ھود:9
انسان کا نفسیاتی تجزیہ:
سوائے کامل ایمان والوں کے عموماً لوگوں میں جو برائیاں ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ راحت کے بعد کی سختی پر مایوس اور محض ناامید ہو جاتے ہیں اللہ سے بد گمانی کر کے آئندہ کے لیے بھلائی کو بھول بیٹھتے ہیں گویا کہ نہ کبھی اس سے پہلے کوئی آرام اٹھایا تھا نہ اس کے بعد کسی راحت کی توقع ہے۔ یہی حال اس کے برخلاف بھی ہے اگر سختی کے بعد آسانی ہو گئی تو کہنے لگتے ہیں کہ بس اب برا وقت ٹل گیا۔ اپنی راحت اپنی تن آسانیوں پر مست و بےفکر ہو جاتے ہیں ۔ دوسروں کا استہزاء کرنے لگتے ہیں ۔ اکڑفوں میں پڑ جاتے ہیں اور آئندہ کی سختی کو بالکل فراموش کر دیتے ہیں ۔ ہاں ایماندار اس بری خصلت سے محفوظ رہتے ہیں، وہ دکھ درد میں صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں راحت و آرام میں اللہ کی فرمان برداری کرتے ہیں ۔ یہ صبر پر مغفرت اور نیکی پر ثواب پاتے ہیں ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے کہ مومن کو کوئی سختی کوئی مصیبت کوئی دکھ، کوئی غم ایسا نہیں پہنچتا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی خطائیں معاف نہ فرماتا ہو، یہاں تک کہ کانٹا لگنے پر بھی۔ بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ سراسر بہتر ہے۔ یہ راحت پا کر شکر کرتا ہے اور بھلائی سمیٹتا ہے۔ تکلیف اٹھا کر صبر کرتا ہے، نیکی پاتا ہے اور ایسا حال مومن کے سوا اور کسی کا نہیں ہو ۔ اسی کا بیان سورۃ والعصر میں ہے۔ یعنی عصر کے وقت کی قسم تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کریں اور ایک دوسرے کو دین حق کی اور صبر کی ہدایت کرتے رہیں
انسان کا نفسیاتی تجزیہ:
سوائے کامل ایمان والوں کے عموماً لوگوں میں جو برائیاں ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ راحت کے بعد کی سختی پر مایوس اور محض ناامید ہو جاتے ہیں اللہ سے بد گمانی کر کے آئندہ کے لیے بھلائی کو بھول بیٹھتے ہیں گویا کہ نہ کبھی اس سے پہلے کوئی آرام اٹھایا تھا نہ اس کے بعد کسی راحت کی توقع ہے۔ یہی حال اس کے برخلاف بھی ہے اگر سختی کے بعد آسانی ہو گئی تو کہنے لگتے ہیں کہ بس اب برا وقت ٹل گیا۔ اپنی راحت اپنی تن آسانیوں پر مست و بےفکر ہو جاتے ہیں ۔ دوسروں کا استہزاء کرنے لگتے ہیں ۔ اکڑفوں میں پڑ جاتے ہیں اور آئندہ کی سختی کو بالکل فراموش کر دیتے ہیں ۔ ہاں ایماندار اس بری خصلت سے محفوظ رہتے ہیں، وہ دکھ درد میں صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں راحت و آرام میں اللہ کی فرمان برداری کرتے ہیں ۔ یہ صبر پر مغفرت اور نیکی پر ثواب پاتے ہیں ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے کہ مومن کو کوئی سختی کوئی مصیبت کوئی دکھ، کوئی غم ایسا نہیں پہنچتا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی خطائیں معاف نہ فرماتا ہو، یہاں تک کہ کانٹا لگنے پر بھی۔ بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ سراسر بہتر ہے۔ یہ راحت پا کر شکر کرتا ہے اور بھلائی سمیٹتا ہے۔ تکلیف اٹھا کر صبر کرتا ہے، نیکی پاتا ہے اور ایسا حال مومن کے سوا اور کسی کا نہیں ہو ۔ اسی کا بیان سورۃ والعصر میں ہے۔ یعنی عصر کے وقت کی قسم تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کریں اور ایک دوسرے کو دین حق کی اور صبر کی ہدایت کرتے رہیں
موجودہ دنیا میں آدمی کو کبھی راحت دی جاتی ہے اور کبھی مصیبت ۔ مگر یہاں نہ راحت انعام کے طور پر ہے اور نہ مصیبت سزا کے طور پر ۔ دونوں ہی کا مقصد جانچ ہے ۔ یہ دنیا دار الامتحان ہے ۔ یہاں انسان کے ساتھ جو کچھ پیش آتا ہے وہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ مختلف حالات میں آدمی نے کس قسم کا رد عمل پیش کیا۔
وہ آدمی ناکام ہے جس کا حال یہ ہو کہ جب اس کو اللہ کی طرف سے کوئی راحت پہنچے تو وہ فخر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے۔ اور جو افراد اس کو اپنے سے کم دکھائی دیں ان کے مقابلہ میں وہ اکڑنے لگے۔ اسی طرح وہ شخص بھی ناکام ہے کہ جب اس سے کوئی چیز چھنے اور وہ مصیبت کا شکار ہو تو وہ ناشکری کرنے لگے۔ کسی محرومی کے بعد بھی آدمی کے پاس اللہ کی دی ہوئی بہت سی چیزیں موجود ہوتی ہیں ۔ مگر آدمی ان کو بھول جاتا ہے اور کھوئی ہوئی چیز کے غم میں ایسا پست ہمت ہوتا ہے گویا اس کا سب کچھ لٹ گیا ہے۔
اس کے برعکس ایمان میں پورا اترنے والے وہ ہیں جو صابر اور صالح العمل ہوں ۔ یعنی ہر جھٹکے کے باوجود اپنے آپ کو اعتدال پر باقی رکھیں اور وہی کریں جو اللہ کا بندہ ہونے کی حیثیت سے انہیں کرنا چاہیے۔
صبر یہ ہے کہ آدمی کی نفسیات حالات کے زیر اثر نہ بنے بلکہ اصول اور نظریہ کے تحت بنے۔ حالات خواہ کچھ ہوں وہ ان سے بلند ہو کر خالص حق کی روشنی میں اپنی رائے بنائے ۔ وہ حالات سے غیر متاثر رہ کر اپنے عقیدہ اور شعور کی سطح پر زندہ رہنے کی طاقت رکھتا ہو ۔ اسی قسم کی زندگی نیک عملی کی زندگی ہے۔ جو لوگ اس نیک عملی کا ثبوت دیں وہی وہ لوگ ہیں جو اگلی زندگی میں اللہ کی رحمتوں کے حصہ دار ہوں گے اور اللہ کی ابدی جنتوں میں جگہ پائیں گے۔
No comments:
Post a Comment