Saturday, May 4, 2024

گناہ کا سرزد ہوجانا

 ارشاد باری تعالیٰ ہے

110۔ اور جو برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو وہ اللہ کو درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا پائے گا۔
111۔ اور جو برائی کا ارتکاب کرتا ہے وہ اپنے لیے وبال کسب کرتا ہے اور اللہ تو بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔
112۔ اور جس نے خطا یا گناہ کر کے اسے کسی بے گناہ کے سر تھوپ دیا تو یقینا اس نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا۔
٭سورۃ النساء ----

تفسیر آیات

گناہ کا سرزد ہوجانا بعید از امکان نہیں ۔ بسا اوقات انسان جذبات سے مغلوب ہو کر یا نادانی اور ناسمجھی سے غلطی کر بیٹھتا ہے۔ اب اس کے لئے یہ ہرگز روا نہیں کہ وہ اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش شروع کردے۔ اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ اپنے غفور ورحیم 
اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے قصور کا اعتراف کرے۔ اس پر صدق دل سے ندامت و شرمندگی کا اظہار کرے اور پختہ وعدہ کرے کہ آئندہ وہ ایسی نائشائستہ حرکت ہرگز نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دامن رحمت میں پناہ دے گا اور اس کے گناہوں کو بخش دے گا۔
راہ حق سے بھٹکنے والوں کے لیے باب رحمت کھلا ہے۔ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں اور اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں کے لیے وسیلۂ استغفار ہر وقت موجود ہے۔

آیت میں دو گناہوں کا ذکر ہے، برائی اور ظلم ۔ ان دونوں کا فرق بیان کرنے والے مفسرین میں بہت اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں، برائی وہ گناہ ہے جو کسی اور شخص کے ساتھ برائی کی ہو اور ظلم اپنے نفس پر کیا ہو۔ سُوۡٓءًا (برائی) سے مراد وہ زیادتی ہو سکتی ہے جو انسان دوسروں کے ساتھ کرتا ہے اور ظلم بہ نفس سے مراد احکام الٰہی کی خلاف ورزی ہے۔
یَرۡمِ:
( رم ی ) رمیٰ ۔ تیر اندازی ۔ بہتان لگانا بھی زبان کا زخم لگانا ہے، اسی لیے اسے رمیٰ بھی کہتے ہیں۔

بُہۡتَان:
ایسا الزام جسے سن کر انسان ششدر اور حیران رہ جائے۔

اس آیت میں ایک ایسے جرم کا ذکر ہے، جس کا تعلق الٰہی اقدار سے بھی ہے اور انسانی اقدار سے بھی۔ الٰہی اقدار سے متعلق اس لیے کہ یہ اللہ کے حکم کی نافرمانی اور خطا و گناہ کا ارتکاب کرنا ہے۔ انسانی اقدار سے متعلق اس لیے ہے کہ کسی گناہ کا الزام کسی بے گناہ شخص پر تھوپ دینا ہے۔

اس آیت میں بَرِیۡٓــًٔا تنوین تنکیر کے ساتھ مذکور ہے، جس کا مطلب بنتا ہے: کوئی بے گناہ۔ اس میں مذہب، قوم اور گروہ کی قید نہیں ہے۔ اگر کسی یہودی کے سر تھوپ دیا جائے تو بھی یہ صریح گناہ ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام انسانی اقدار میں سب انسانوں کو مساوی حقوق دیتا ہے اور تمام انسان اسلام کے نزدیک محترم ہیں، بشرطیکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی جرم و جاہلیت کا ارتکاب نہ کریں۔
لہٰذا اس آیت سے بہتان کے عظیم گناہ ہونے کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہتان کو گناہ تصور ہی نہیں کیا جاتا۔

No comments:

Post a Comment