قیامت کب اور کس وقت؟
یہ دریافت کرنے والے قریشی بھی تھے اور یہودی بھی۔ لیکن چونکہ یہ آیت مکی ہے اس لیے ٹھیک یہی ہے کہ قریشیوں کا سوال تھا چونکہ وہ قیامت کے قائل ہی نہ تھے، اس لیے اس قسم کے سوال کیا کرتے تھے کہ
«وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ»
[21-الأنبياء:38]
” اگر سچے ہو تو اس کا ٹھیک وقت بتا دو۔ “
«يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ»
«يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ»
[42-الشورى:18]
” ادھر بےایمان اس کی جلدی مچا رہے ہیں، ادھر ایماندار اسے حق جان کر اس سے ڈر رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جنہیں اس میں بھی شک ہے، دوردراز کی گمراہی میں تو وہی ہیں۔ “
«يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّـهِ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا»
«يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّـهِ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا»
[33-الأحزاب:63]
” پوچھا کرتے تھے کہ قیامت واقع کب ہو گی؟ جواب سکھایا گیا کہ اس کے صحیح وقت کا علم سوائے اللہ کے، کسی کو نہیں۔ “
وہی اس کے صحیح وقت سے واقف ہے، بجز اس کے، کسی کو اس کے واقع ہونے کا وقت معلوم نہیں۔ اس کا علم زمین و آسمان پر بھی بھاری ہے، ان کے رہنے والی ساری مخلوق اس علم سے خالی ہے۔ وہ جب آئے گی، سب پر ایک ہی وقت واقع ہو گی، سب کو ضرر پہنچے گا۔
آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے، سورج بے نور ہو جائے گا، پہاڑ اڑنے لگیں گے۔ اسی لیے وہ ساری مخلوق پر گراں گزر رہی ہے۔ اس کے واقع ہونے کے صحیح وقت کا علم ساری مخلوق پر بھاری ہے، زمین و آسمان والے سب اس سے عاجز اور بےخبر ہیں۔ وہ تو اچانک سب کی بے خبری میں ہی آئے گی۔
کوئی بزرگ سے بزرگ فرشتہ، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر بھی اس کے آنے کے وقت کا عالم نہیں۔ وہ تو سب کی بے خبری میں ہی آ جائے گی۔
وہی اس کے صحیح وقت سے واقف ہے، بجز اس کے، کسی کو اس کے واقع ہونے کا وقت معلوم نہیں۔ اس کا علم زمین و آسمان پر بھی بھاری ہے، ان کے رہنے والی ساری مخلوق اس علم سے خالی ہے۔ وہ جب آئے گی، سب پر ایک ہی وقت واقع ہو گی، سب کو ضرر پہنچے گا۔
آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے، سورج بے نور ہو جائے گا، پہاڑ اڑنے لگیں گے۔ اسی لیے وہ ساری مخلوق پر گراں گزر رہی ہے۔ اس کے واقع ہونے کے صحیح وقت کا علم ساری مخلوق پر بھاری ہے، زمین و آسمان والے سب اس سے عاجز اور بےخبر ہیں۔ وہ تو اچانک سب کی بے خبری میں ہی آئے گی۔
کوئی بزرگ سے بزرگ فرشتہ، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر بھی اس کے آنے کے وقت کا عالم نہیں۔ وہ تو سب کی بے خبری میں ہی آ جائے گی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: دنیا کے تمام کام حسب دستور ہو رہے ہوں گے، جانوروں والے اپنے جانوروں کے پانی پینے والے حوض درست کر رہے ہوں گے، تجارت والے ناپ تول میں مشغول ہوں گے، قیامت آ جائے گی۔
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ قیامت قائم ہونے سے پہلے سورج مغرب کی طرف سے نکلے گا، اسے دیکھتے ہی سب لوگ ایمان قبول کر لیں گے۔ لیکن اس وقت کا ایمان ان کے لیے بےسود ہو گا۔
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ قیامت قائم ہونے سے پہلے سورج مغرب کی طرف سے نکلے گا، اسے دیکھتے ہی سب لوگ ایمان قبول کر لیں گے۔ لیکن اس وقت کا ایمان ان کے لیے بےسود ہو گا۔
جو اس سے پہلے ایمان نہ لائے ہوں اور جنہوں نے اس سے پہلے نیکیاں نہ کی ہوں۔ قیامت اس طرح دفعتاً آ جائے گی کہ ایک شخص کپڑا پھیلائے دوسرے کو دکھا رہا ہو گا اور دوسرا دیکھ رہا ہو گا، بھاؤ تاؤ ہو رہا ہو گا کہ قیامت واقع ہو جائے گی۔ نہ یہ خرید و فروخت کر سکیں گے، نہ کپڑے کی تہہ کر سکیں گے۔ کوئی دودھ دوہ کر آ رہا ہو گا، پی نہ سکے گا کہ قیامت آ جائے گی۔ کوئی حوض درست کر رہا ہو گا، ابھی جانوروں کو پانی نہ پلا چکا ہو گا کہ قیامت آ جائے گی۔ کوئی لقمہ اٹھائے ہوئے ہو گا، ابھی منہ میں نہ ڈالا ہو گا کہ قیامت آ جائے گی۔ [صحیح بخاری:6506]
صحیح مسلم شریف میں ہے: آدمی دودھ کا کٹورا (برتن) اٹھا کر پینا چاہتا ہی ہو گا، ابھی منہ سے نہ لگا پائے گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔ کپڑے کے خریدار بھی سودا نہ کر چکے ہوں گے کہ قیامت آ جائے گی۔ حوض والے بھی لیپاپوتی کر رہے ہوں گے کہ قیامت برپا ہو جائے گی۔
تجھ سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا تو ان کا سچا رفیق ہے، یہ تیرے پکے دوست ہیں۔ اس طرح پوچھتے ہیں گویا کہ تجھے اس کا حال معلوم ہے حالانکہ کسی مقرب فرشتے یا نبی یا رسول کو اس کا علم ہرگز نہیں۔
قریشیوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو آپ کے قرابت دار ہیں، ہمیں تو بتا دیجئے کہ قیامت کب اور کس دن، کس سال آئے گی؟ اس طرح پوچھا کہ گویا آپ کو معلوم ہے۔ حالانکہ اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہی ہے۔ جیسے فرمان ہے:
صحیح مسلم شریف میں ہے: آدمی دودھ کا کٹورا (برتن) اٹھا کر پینا چاہتا ہی ہو گا، ابھی منہ سے نہ لگا پائے گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔ کپڑے کے خریدار بھی سودا نہ کر چکے ہوں گے کہ قیامت آ جائے گی۔ حوض والے بھی لیپاپوتی کر رہے ہوں گے کہ قیامت برپا ہو جائے گی۔
تجھ سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا تو ان کا سچا رفیق ہے، یہ تیرے پکے دوست ہیں۔ اس طرح پوچھتے ہیں گویا کہ تجھے اس کا حال معلوم ہے حالانکہ کسی مقرب فرشتے یا نبی یا رسول کو اس کا علم ہرگز نہیں۔
قریشیوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو آپ کے قرابت دار ہیں، ہمیں تو بتا دیجئے کہ قیامت کب اور کس دن، کس سال آئے گی؟ اس طرح پوچھا کہ گویا آپ کو معلوم ہے۔ حالانکہ اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہی ہے۔ جیسے فرمان ہے:
«إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ»
[31-لقمان:34]
” قیامت کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ “
یہی معنی زیادہ ترجیح والے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
یہی معنی زیادہ ترجیح والے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
جبرائیل علیہ السلام نے بھی جب اعرابی کا روپ دھار کر سائل کی شکل میں آپ کے پاس بیٹھ کر آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف جواب دیا کہ اس کا علم نہ مجھے ہے، نہ تجھے۔ اس سے پہلے کے سوالات آپ بتا چکے تھے، اس سوال کے جواب میں اپنی لاعلمی ظاہر کر کے پھر سورۃ لقمان کی آخری آیت پڑھی کہ ان پانچ چیزوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یعنی علم قیامت، بارش کا آنا، مادہ کے پیٹ کے بچے کا حال، کل کے حالات، موت کی جگہ۔ ہاں! جب انہوں نے اس کی علامتیں پوچھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیں۔ پھر آپ نے اسی آیت کو تلاوت فرمایا، جبکہ جبرائیل علیہ السلام آپ کے ہر جواب پر یہی فرماتے جاتے تھے کہ آپ نے سچ فرمایا۔ ان کے چلے جانے کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم نے تعجب سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کون صاحب تھے؟ آپ نے فرمایا: جبرائیل علیہ السلام تھے، تمہیں دین سکھانے آئے تھے۔ [صحیح بخاری:50]
جب کبھی وہ میرے پاس جس شکل میں بھی آئے، میں نے انہیں پہچان لیا لیکن اس مرتبہ تو میں خود اب تک نہ پہچان سکا تھا۔
ایک اعرابی نے آ کر با آواز بلند آپ کا نام لے کر آپ کو پکارا، آپ نے اسی طرح جواب دیا۔ اس نے کہا: قیامت کب ہو گی؟
جب کبھی وہ میرے پاس جس شکل میں بھی آئے، میں نے انہیں پہچان لیا لیکن اس مرتبہ تو میں خود اب تک نہ پہچان سکا تھا۔
ایک اعرابی نے آ کر با آواز بلند آپ کا نام لے کر آپ کو پکارا، آپ نے اسی طرح جواب دیا۔ اس نے کہا: قیامت کب ہو گی؟
آپ نے فرمایا: وہ آنے والی تو قطعاً ہے۔ تو بتا، تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ روزے نماز تو میرے پاس زیادہ نہیں۔ البتہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے اپنے دل کو لبریز پاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: انسان اسی کے ہمراہ ہو گا جس سے محبت رکھتا ہو۔
[صحیح بخاری:6567]
مومن اس حدیث کو سن کر بہت ہی خوش ہوئے کہ اس قدر خوشی انہیں اور کسی چیز پر نہیں ہوئی تھی۔
آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی آپ سے ایسا سوال کرے جس کی ضرورت نہ ہو تو آپ اسے وہ بات بتاتے جو اس سے کہیں زیادہ مفید ہو۔ اسی لیے اس سائل کو بھی فرمایا کہ وقت کا علم کیا فائدہ دے گا؟ ہو سکے تو تیاری کر لو۔
صحیح مسلم میں ہے کہ اعراب لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کبھی قیامت کے بارے سوال کرتے تو آپ جو ان میں سب سے کم عمر ہوتا، اسے دیکھ کر فرماتے کہ اگر یہ اپنی طبعی عمر تک پہنچا تو اس کے بڑھاپے تک ہی تم اپنی قیامت کو پالو گے۔ اس سے مراد ان کی موت ہے جو آخرت کے برزخ میں پہنچا دیتی ہے۔ [صحیح بخاری:6511]
مومن اس حدیث کو سن کر بہت ہی خوش ہوئے کہ اس قدر خوشی انہیں اور کسی چیز پر نہیں ہوئی تھی۔
آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی آپ سے ایسا سوال کرے جس کی ضرورت نہ ہو تو آپ اسے وہ بات بتاتے جو اس سے کہیں زیادہ مفید ہو۔ اسی لیے اس سائل کو بھی فرمایا کہ وقت کا علم کیا فائدہ دے گا؟ ہو سکے تو تیاری کر لو۔
صحیح مسلم میں ہے کہ اعراب لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کبھی قیامت کے بارے سوال کرتے تو آپ جو ان میں سب سے کم عمر ہوتا، اسے دیکھ کر فرماتے کہ اگر یہ اپنی طبعی عمر تک پہنچا تو اس کے بڑھاپے تک ہی تم اپنی قیامت کو پالو گے۔ اس سے مراد ان کی موت ہے جو آخرت کے برزخ میں پہنچا دیتی ہے۔ [صحیح بخاری:6511]
صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میں اور قیامت اس طرح آئے ہیں اور آپ نے اپنی دونوں انگلیاں جوڑ کر بتائیں یعنی شہادت کی انگلی اور اس کے پاس کی انگلی۔ [صحیح بخاری:6504] لیکن باوجود اس کے، قیامت کا علم آپ کو نہ تھا۔
صلی اللہ علیہ وسلم سے جب سوال ہوا تو یہی حکم ملا، جواب دو کہ
«يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا فِيمَ أَنتَ مِن ذِكْرَاهَا إِلَىٰ رَبِّكَ مُنتَهَاهَا»
[79-النازعات:42]
” اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے لیکن اکثر لوگ بےعلم ہیں۔ “
No comments:
Post a Comment