رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے
سورۃ الاَعراف - آیت 23
توبہ و استغفار کے یہ وہی کلمات ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے سیکھے تھے۔ شیطان نے جب اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تو اس کے بعد نہ صرف وہ اس پر اڑ گیا، بلکہ اس کے جواز و اثبات میں عقلی و قیاسی دلائل بھی دینے لگا۔ نتیجتاً وہ راندۃ درگاہ اور ہمیشہ کے لیے ملعون قرار پایا۔ اور حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی غلطی پر ندامت و پریشانی کا اظہار اور بارگاہ الہی میں توبہ و استغفار کا اہتمام کیا ، تو اللہ کی رحمت و مغفرت کے مستحق قرار پائے۔ یوں گویا دونوں راستوں کی نشاندہی ہو گئی۔
شیطانی راستے کی بھی اور اللہ والوں کے راستے کی بھی ۔ گناہ کر کے اس پر اترانا ، اصرار کرنا اور اس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے "دلائل " کے انبار فراہم کرنا شیطانی راستہ ہے۔ اور گناہ کے بعد احساس ندامت سے مغلوب ہو کر بارگاہ الہی میں جھک جانا اور توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا بندگان الہی کا راستہ ہے۔
ترجمہ : "مولانا محمد جونا گڑھی
تفسیر: مولانا صلاح الدین یوسف
No comments:
Post a Comment