Wednesday, July 1, 2015

بادِ بہار بھی چلتی ہے، آرے کی طرح



بادِ بہار بھی چلتی ہے، آرے کی طرح
پُھولوں سے آنچ آتی ہے، شعلے کی طرح

زندہ ہوُں، یا کوئی ٹھکانا ڈھوُنڈتا ہوُں
دستِ شجر سے چُھوٹے ہوُئے، پتّے کی طرح

کتنا خوُش رُُو اور، کتنا زہریلا تھا
مجھ کو تو وہ شخص لگا، ہیرے کی طرح

اُس کی یاد سُکوں بھی، اور بے چینی بھی
ماں کی گود میں روتے ہوُئے، بچے کی طرح

جانے کرہء ارض پہ، یا مریخ پہ ہوُں
چاند لگے چنگاری کے، نقطے کی طرح

نئے نئے اوہام، قدیم ایمانوں پر
پھیل رہے ہیں، مکڑی کے جالے کی طرح

اِک اِک رہبر مجھ سے، مخاطب ہوتا ہے
پنجوں کے بَل کھڑے ہوُئے، بچے کی طرح

"احمد ندیم قاسمی"
مجموعۂ کلام: "دوام"

#دلِ_مضطر
 
 
 

No comments:

Post a Comment