Thursday, December 17, 2015

زکوٰۃ دینا فرض ہے

صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
1. بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ:
باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے۔
حدیث نمبر: Q1395

وقول الله تعالى: واقيموا الصلاة وآتوا الزكاة سورة البقرة آية 43 , وقال ابن عباس رضي الله عنهما , حدثني ابو سفيان رضي الله عنه فذكر حديث النبي صلى الله عليه وسلم , فقال: يامرنا بالصلاة , والزكاة , والصلة , والعفاف.
‏‏‏‏ اور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا ‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق (قیصر روم سے اپنی) گفتگو نقل کی کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں وہ نماز ‘ زکوٰۃ ‘ صلہ رحمی ‘ ناطہٰ جوڑنے اور حرام کاری سے بچنے کا حکم دیتے ہیں۔
حدیث نمبر: 1395

(مرفوع) حدثنا ابو عاصم الضحاك بن مخلد، عن زكرياء بن إسحاق، عن يحيى بن عبد الله بن صيفي، عن ابي معبد، عن ابن عباس رضي الله عنهما،" ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث معاذا رضي الله عنه إلى اليمن , فقال: ادعهم إلى شهادة ان لا إله إلا الله , واني رسول الله، فإن هم اطاعوا لذلك فاعلمهم ان الله قد افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم اطاعوا لذلك فاعلمهم ان الله افترض عليهم صدقة في اموالهم تؤخذ من اغنيائهم وترد على فقرائهم".
ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا ‘ ان سے زکریا بن اسحاق نے بیان کیا ‘ ان سے یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی نے بیان کیا، ان سے ابومعبد نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن (کا حاکم بنا کر) بھیجا تو فرمایا کہ تم انہیں اس کلمہ کی گواہی کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ لوگ یہ بات مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ لوگ یہ بات بھی مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر کچھ صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا۔
حدیث نمبر: 1396

(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، عن ابن عثمان بن عبد الله بن موهب، عن موسى بن طلحة، عن ابي ايوب رضي الله عنه،" ان رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم: اخبرني بعمل يدخلني الجنة، قال: ما له، ما له، وقال النبي صلى الله عليه وسلم: ارب ما له تعبد الله ولا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصل الرحم"، وقال بهز: حدثنا شعبة، حدثنا محمد بن عثمان وابوه عثمان بن عبد الله، انهما سمعا موسى بن طلحة، عن ابي ايوب، بهذا , قال ابو عبد الله: اخشى ان يكون محمد غير محفوظ إنما هو عمرو.
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے محمد بن عثمان بن عبداللہ بن موہب سے بیان کیا ہے ‘ ان سے موسیٰ بن طلحہ نے اور ان سے ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آخر یہ کیا چاہتا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بہت اہم ضرورت ہے۔ (سنو) اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراو۔ نماز قائم کرو۔ زکوٰۃ دو اور صلہ رحمی کرو۔ اور بہز نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن عثمان اور ان کے باپ عثمان بن عبداللہ نے بیان کیا کہ ان دونوں صاحبان نے موسیٰ بن طلحہ سے سنا اور انہوں نے ابوایوب سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی حدیث کی طرح (سنا) ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ محمد سے روایت غیر محفوظ ہے اور روایت عمرو بن عثمان سے (محفوظ ہے)۔
حدیث نمبر: 1397

(مرفوع) حدثني محمد بن عبد الرحيم، حدثنا عفان بن مسلم، حدثنا وهيب، عن يحيى بن سعيد بن حيان، عن ابي زرعة، عن ابي هريرةرضي الله عنه،" ان اعرابيا اتى النبي صلى الله عليه وسلم , فقال: دلني على عمل إذا عملته دخلت الجنة؟ , قال: تعبد الله لا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة المكتوبة، وتؤدي الزكاة المفروضة، وتصوم رمضان، قال: والذي نفسي بيده لا ازيد على هذا، فلما ولى قال النبي صلى الله عليه وسلم: من سره ان ينظر إلى رجل من اهل الجنة، فلينظر إلى هذا".
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ان سے یحییٰ بن سعید بن حیان نے ‘ ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ آپ مجھے کوئی ایسا کام بتلائیے جس پر اگر میں ہمیشگی کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر ‘ اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرا ‘ فرض نماز قائم کر ‘ فرض زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھ۔ دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘ ان عملوں پر میں کوئی زیادتی نہیں کروں گا۔ جب وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو جنت والوں میں سے ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔
حدیث نمبر: Q1398

حدثنا مسدد، عن يحيى، عن ابي حيان , قال: اخبرني ابو زرعة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا.
‏‏‏‏ ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ‘ ان سے یحییٰ بن سعید قطان نے ‘ ان سے ابوحیان نے ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوزرعہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کی۔
حدیث نمبر: 1398

(مرفوع) حدثنا حجاج، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا ابو جمرة , قال: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما , يقول:" قدم وفد عبد القيس على النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، إن هذا الحي من ربيعة قد حالت بيننا وبينك كفار مضر، ولسنا نخلص إليك إلا في الشهر الحرام، فمرنا بشيء ناخذه عنك وندعو إليه من وراءنا؟ قال: آمركم باربع , وانهاكم عن اربع، الإيمان بالله , وشهادة ان لا إله إلا الله , وعقد بيده هكذا , وإقام الصلاة , وإيتاء الزكاة , وان تؤدوا خمس ما غنمتم، وانهاكم عن الدباء والحنتم , والنقير , والمزفت"، وقال سليمان وابو النعمان، عن حماد، الإيمان بالله , شهادة ان لا إله إلا الله.
ہم سے حجاج بن منہال نے حدیث بیان کی ‘ کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوجمرہ نصر بن عمران ضبعی نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ آپ نے بتلایا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم قبیلہ ربیعہ کی ایک شاخ ہیں اور قبیلہ مضر کے کافر ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان پڑتے ہیں۔ اس لیے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صرف حرمت کے مہینوں ہی میں حاضر ہو سکتے ہیں (کیونکہ ان مہینوں میں لڑائیاں بند ہو جاتی ہیں اور راستے پرامن ہو جاتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلا دیجئیے جس پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے قبیلہ کے لوگوں سے بھی ان پر عمل کرنے کے لیے کہیں جو ہمارے ساتھ نہیں آ سکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کی وحدانیت کی شہادت دینے کا (یہ کہتے ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا۔ نماز قائم کرنا ‘ پھر زکوٰۃ ادا کرنا اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنے (کا حکم دیتا ہوں) اور میں تمہیں کدو کے تونبی سے اور حنتم (سبز رنگ کا چھوٹا سا مرتبان جیسا گھڑا) فقیر (کھجور کی جڑ سے کھودا ہوا ایک برتن) اور زفت لگا ہوا برتن (زفت بصرہ میں ایک قسم کا تیل ہوتا تھا) کے استعمال سے منع کرتا ہوں۔ سلیمان اور ابوالنعمان نے حماد کے واسطہ سے یہی روایت اس طرح بیان کی ہے۔ «الإيمان بالله شهادة أن لا إله إلا الله» یعنی اللہ پر ایمان لانے کا مطلب «لا إله إلا الله» کی گواہی دینا۔
حدیث نمبر: 1399

(مرفوع) حدثنا ابو اليمان الحكم بن نافع، اخبرنا شعيب بن ابي حمزة، عن الزهري، حدثنا عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، ان ابا هريرة رضي الله عنه , قال:" لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان ابو بكر رضي الله عنه وكفر من كفر من العرب، فقال عمر رضي الله عنه: كيف تقاتل الناس؟ وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: امرت ان اقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله، فمن قالها فقد عصم مني ماله , ونفسه إلا بحقه , وحسابه على الله.
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی ‘ ان سے زہری نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہو گئے (اور کچھ نے زکوٰۃ سے انکار کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑنا چاہا) تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی موجودگی میں کیونکر جنگ کر سکتے ہیں مجھے حکم ہے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کی شہادت نہ دیدیں اور جو شخص اس کی شہادت دیدے تو میری طرف سے اس کا مال و جان محفوظ ہو جائے گا۔ سوا اسی کے حق کے (یعنی قصاص وغیرہ کی صورتوں کے) اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہو گا۔
حدیث نمبر: 1400

(مرفوع) فقال: والله لاقاتلن من فرق بين الصلاة , والزكاة، فإن الزكاة حق المال , والله لو منعوني عناقا كانوا يؤدونها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم لقاتلتهم على منعها، قال عمر رضي الله عنه: فوالله ما هو إلا ان قد شرح الله صدر ابي بكر رضي الله عنه , فعرفت، انه الحق".
اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو زکوٰۃ اور نماز میں تفریق کرے گا۔ (یعنی نماز تو پڑھے مگر زکوٰۃ کے لیے انکار کر دے) کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر انہوں نے زکوٰۃ میں چار مہینے کی (بکری کے) بچے کو دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدا یہ بات اس کا نتیجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا تھا اور بعد میں، میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے۔


No comments:

Post a Comment