Friday, December 18, 2015

میت کی تعریف

صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
85. بَابُ ثَنَاءِ النَّاسِ عَلَى الْمَيِّتِ:
باب: لوگوں کی زبان پر میت کی تعریف ہو تو بہتر ہے۔
حدیث نمبر: 1367

(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا عبد العزيز بن صهيب , قال: سمعت انس بن مالك رضي الله عنه , يقول:" مروا بجنازة فاثنوا عليها خيرا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: وجبت، ثم مروا باخرى فاثنوا عليها شرا , فقال: وجبت، فقال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: ما وجبت، قال: هذا اثنيتم عليه خيرا فوجبت له الجنة، وهذا اثنيتم عليه شرا فوجبت له النار، انتم شهداء الله في الارض".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ نے فرمایا کہ صحابہ کا گزر ایک جنازہ پر ہوا ‘ لوگ اس کی تعریف کرنے لگے (کہ کیا اچھا آدمی تھا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ پھر دوسرے جنازے کا گزر ہوا تو لوگ اس کی برائی کرنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ اس پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا چیز واجب ہو گئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میت کی تم لوگوں نے تعریف کی ہے اس کے لیے تو جنت واجب ہو گئی اور جس کی تم نے برائی کی ہے اس کے لیے دوزخ واجب ہو گئی۔ تم لوگ زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔
حدیث نمبر: 1368

(مرفوع) حدثنا عفان بن مسلم هو الصفار، حدثنا داود بن ابي الفرات، عن عبد الله بن بريدة، عن ابي الاسود , قال: قدمت المدينة وقد وقع بها مرض، فجلست إلى عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فمرت بهم جنازة فاثني على صاحبها خيرا، فقال عمر رضي الله عنه: وجبت، ثم مر باخرى فاثني على صاحبها خيرا، فقال عمر رضي الله عنه: وجبت، ثم مر بالثالثة فاثني على صاحبها شرا، فقال: وجبت، فقال ابو الاسود: فقلت: وما وجبت يا امير المؤمنين، قال: قلت كما , قال النبي صلى الله عليه وسلم: ايما مسلم شهد له اربعة بخير ادخله الله الجنة، فقلنا: وثلاثة، قال: وثلاثة، فقلنا: واثنان، قال: واثنان، ثم لم نساله عن الواحد".
ہم سے عفان بن مسلم صفار نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے داؤد بن ابی الفرات نے ‘ ان سے عبداللہ بن بریدہ نے ‘ ان سے ابوالاسود دئلی نے کہ میں مدینہ حاضر ہوا۔ ان دنوں وہاں ایک بیماری پھیل رہی تھی۔ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا کہ ایک جنازہ سامنے سے گزرا۔ لوگ اس میت کی تعریف کرنے لگے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واجب ہو گئی پھر ایک اور جنازہ گزرا، لوگ اس کی بھی تعریف کرنے لگے۔ اس مرتبہ بھی آپ نے ایسا ہی فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ پھر تیسرا جنازہ نکلا ‘ لوگ اس کی برائی کرنے لگے ‘ اور اس مرتبہ بھی آپ نے یہی فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ ابوالاسود دئلی نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا کہ امیرالمؤمنین کیا چیز واجب ہو گئی؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس وقت وہی کہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کی اچھائی پر چار شخص گواہی دے دیں اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ہم نے کہا اور اگر تین گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ تین پر بھی، پھر ہم نے پوچھا اور اگر دو مسلمان گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ دو پر بھی۔ پھر ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ اگر ایک مسلمان گواہی دے تو کیا؟
 

 

No comments:

Post a Comment