Sunday, November 29, 2015

صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم


●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
اللَّهُـمّ صَــــــلٌ علَےَ مُحمَّــــــــدْ و علَےَ آل مُحمَّــــــــدْ
كما صَــــــلٌيت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ
مَجِيدٌ اللهم بارك علَےَ مُحمَّــــــــدْ و علَےَ آل مُحمَّــــــــدْ كما
باركت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●


 
 

صلہ رحمی

صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
13. بَابُ مَنْ أَحَبَّ الْبَسْطَ فِي الرِّزْقِ:
باب: جو روزی میں کشادگی چاہتا ہو وہ کیا کرے؟
حدیث نمبر: 2067

(مرفوع) حدثنا محمد بن ابي يعقوب الكرماني، حدثنا حسان، حدثنا يونس، قال محمد هو الزهري، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من سره ان يبسط له في رزقه، او ينسا له في اثره، فليصل رحمه".
ہم سے محمد بن یعقوب کرمانی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حسان بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا، ان سے محمد بن مسلم نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کیا کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ جو شخص اپنی روزی میں کشادگی چاہتا ہو یا عمر کی دارازی چاہتا ہو تو اسے چاہئیے کہ صلہ رحمی کرے۔

فیاضی اور نرمی



 
صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
16. بَابُ السُّهُولَةِ وَالسَّمَاحَةِ فِي الشِّرَاءِ وَالْبَيْعِ، وَمَنْ طَلَبَ حَقًّا فَلْيَطْلُبْهُ فِي عَفَافٍ:
باب: خرید و فروخت کے وقت نرمی، وسعت اور فیاضی کرنا اور کسی سے اپنا حق پاکیزگی سے مانگنا۔
حدیث نمبر: 2076

(مرفوع) حدثنا علي بن عياش، حدثنا ابو غسان محمد بن مطرف، قال: حدثني محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" رحم الله رجلا سمحا، إذا باع، وإذا اشترى، وإذا اقتضى".
ہم سے علی بن عیاش نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوغسان محمد بن مطرف نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن منکدر نے بیان کیا، اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم کرے جو بیچتے وقت اور خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتا ہے۔

اچھے کام


صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
17. بَابُ مَنْ أَنْظَرَ مُوسِرًا:
باب: جو شخص مالدار کو مہلت دے۔
حدیث نمبر: 2077

(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا منصور، ان ربعي بن حراش حدثه، ان حذيفة رضي الله عنه حدثه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" تلقت الملائكة روح رجل ممن كان قبلكم، قالوا: اعملت من الخير شيئا؟ قال: كنت آمر فتياني ان ينظروا ويتجاوزوا عن الموسر، قال: قال: فتجاوزوا عنه، قال ابو عبد الله: وقال ابو مالك: عن ربعي: كنت ايسر على الموسر وانظر المعسر، وتابعه شعبة، عن عبد الملك، عن ربعي، وقال ابو عوانة: عن عبد الملك، عن ربعي انظر الموسر واتجاوز عن المعسر، وقال نعيم بن ابي هند: عن ربعي، فاقبل من الموسر واتجاوز عن المعسر.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا کہا کہ ہم سے منصور نے، ان سے ربعی بن حراش نے بیان کیا اور ان سے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم سے پہلے گذشتہ امتوں کے کسی شخص کی روح کے پاس (موت کے وقت) فرشتے آئے اور پوچھا کہ تو نے کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں؟ روح نے جواب دیا کہ میں اپنے نوکروں سے کہا کرتا تھا کہ وہ مالدار لوگوں کو (جو ان کے مقروض ہوں) مہت دے دیا کریں اور ان پر سختی نہ کریں۔ اور محتاجوں کو معاف کر دیا کریں۔ راوی نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر فرشتوں نے بھی اس سے درگزر کیا اور سختی نہیں کی اور ابومالک نے ربعی سے (اپنی روایت میں یہ الفاظ) بیان کئے ہیں کھاتے کماتے کے ساتھ (اپنا حق لیتے وقت) نرم معاملہ کرتا تھا اور تنگ حال مقروض کو مہلت دیتا تھا۔ اس کی متابعت شعبہ نے کی ہے۔ ان سے عبدالملک نے اور ان سے ربعی نے بیان کیا، ابوعوانہ نے کہا کہ ان سے عبدالملک نے ربعی سے بیان کیا کہ (اس روح نے یہ الفاظ کہے تھے) میں کھاتے کماتے کو مہلت دے دیتا تھا اور تنگ حال والے مقروض سے درگزر کرتا تھا اور نعیم بن ابی ہند نے بیان کیا، ان سے ربعی نے (کہ روح نے یہ الفاظ کہے تھے) میں کھاتے کماتے لوگوں کے (جن پر میرا کوئی حق واجب ہوتا) عذر قبول کر لیا کرتا تھا اور تنگ حال والے سے درگزر کر دیتا تھا۔

Saturday, November 28, 2015

یہ بارشیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں



یہ بارشیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی باہر کچھ زیادہ بھگو نہ بھی پائیں پھر بھی ہمارے اندر جل تھل مچا دیتی ہیں یہ اور بات ہے کہ ہمارے اندر برستی وہ پھوار باہر کسی کو نظر نہیں آتی۔ لیکن کچھ بد نصیب ایسے بھی تو ہوتے ہیں جن کے اندر باہر پرستے ساون کا ایک چھینٹا بھی نہیں پڑتا۔ ان کا اندر سدا صحرا ہی رہتا ہے ۔

اقتباس : ہاشم ندیم کی کتاب صلیبِ عشق کے افسانے رین کوٹ سے

●๋•!! متاع جَاں!! ●๋
 
https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982
 

انا کا ہوں نہیں قائل



انا کا ہوں نہیں قائل الفت ہے مجھے سب سے
جو دل میں بغض رکھتے ہیں میں ان اپنوں سے ڈرتا ہوں

#دلِ_مضطر
 
 

سچائی


صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
19. بَابُ إِذَا بَيَّنَ الْبَيِّعَانِ وَلَمْ يَكْتُمَا وَنَصَحَا:
باب: جب خریدنے والے اور بیچنے والے دونوں صاف صاف بیان کر دیں اور ایک دوسرے کی بہتری چاہیں۔
حدیث نمبر: Q2079

ويذكر عن العداء بن خالد، قال: كتب لي النبي صلى الله عليه وسلم هذا ما اشترى محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم من العداء بن خالد بيع المسلم من المسلم، لا داء، ولا خبثة، ولا غائلة، وقال قتادة: الغائلة الزنا، والسرقة، والإباق، وقيل لإبراهيم: إن بعض النخاسين يسمي آري خراسان وسجستان، فيقول: جاء امس من خراسان، جاء اليوم من سجستان فكرهه كراهية شديدة، وقال عقبة بن عامر: لا يحل لامرئ يبيع سلعة يعلم ان بها داء إلا اخبره.
‏‏‏‏ اور عداء بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع نامہ لکھ دیا تھا کہ یہ وہ کاغذ ہے جس میں محمد اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا عداء بن خالد سے خریدنے کا بیان ہے۔ یہ بیع مسلمان کی ہے مسلمان کے ہاتھ، نہ اس میں کوئی عیب ہے نہ کوئی فریب نہ فسق و فجور، نہ کوئی بدباطنی ہے۔ اور قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ غائلہ، زنا، چوری اور بھاگنے کی عادت کو کہتے ہیں۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے کسی نے کہا کہ بعض دلال (اپنے اصطبل کے) نام آری خراسان اور سجستان (خراسانی اصطبل اور سجستانی اصطبل) رکھتے ہیں اور (دھوکہ دینے کے لیے) کہتے ہیں کہ فلاں جانور کل ہی خراسان سے آیا تھا۔ اور فلاں آج ہی سجستان سے آیا ہے۔ تو ابراہیم نخعی نے اس بات کو بہت زیادہ ناگواری کے ساتھ سنا۔ عقبہ بن عامر نے کہا کہ کسی شخص کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ کوئی سودا بیچے اور یہ جاننے کے باوجود کہ اس میں عیب ہے خریدنے والے کو اس کے متعلق کچھ نہ بتائے۔
حدیث نمبر: 2079

(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن صالح ابي الخليل، عن عبد الله بن الحارث، رفعه إلى حكيم بن حزام رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" البيعان بالخيار ما لم يتفرقا، او قال حتى يتفرقا، فإن صدقا وبينا، بورك لهما في بيعهما، وإن كتما وكذبا، محقت بركة بيعهما".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے ان سے صالح ابوخلیل نے، ان سے عبیداللہ بن حارث نے، انہوں نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، خریدنے اور بیچنے والوں کو اس وقت تک اختیار (بیع ختم کر دینے کا) ہے جب تک دونوں جدا نہ ہوں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( «ما لم يتفرقا» کے بجائے) «حتى يتفرقا» فرمایا۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا) پس اگر دونوں نے سچائی سے کام لیا اور ہر بات صاف صاف کھول دی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہوتی ہے لیکن اگر کوئی بات چھپا رکھی یا جھوٹ کہی تو ان کی برکت ختم کر دی جاتی ہے۔
 

سچائی اختیار کی

صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
22. بَابُ مَا يَمْحَقُ الْكَذِبُ وَالْكِتْمَانُ فِي الْبَيْعِ:
باب: بیچنے میں جھوٹ بولنے اور عیب کو چھپانے سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔
حدیث نمبر: 2082

(مرفوع) حدثنا بدل بن المحبر، حدثنا شعبة، عن قتادة، قال: سمعت ابا الخليل يحدث، عن عبد الله بن الحارث، عن حكيم بن حزام رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" البيعان بالخيار ما لم يتفرقا، او قال: حتى يتفرقا، فإن صدقا وبينا، بورك لهما في بيعهما، وإن كتما وكذبا، محقت بركة بيعهما".
ہم سے بدل بن محبر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے قتادہ نے، کہا کہ میں نے ابوخلیل سے سنا، وہ عبداللہ بن حارث سے نقل کرتے تھے اور وہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، خرید و فروخت کرنے والوں کو اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں (کہ بیع فسخ کر دیں یا رکھیں) یا آپ نے ( «ما لم يتفرقا» کے بجائے) «حتى يتفرقا» فرمایا۔ پس اگر دونوں نے سچائی اختیار کی اور ہر بات کھول کھول کر بیان کی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہو گی اور اگر انہوں نے کچھ چھپائے رکھا یا جھوٹ بولا تو ان کے خرید و فروخت کی برکت ختم کر دی جائے گی۔

وقت


وقت ہمیشہ گھات لگا کر بیٹھا رہتا ہے اور آستین میں چھپے سانپ کی طرح اچانک ہی حملہ آور ہوتا ہے۔ اتنا اچانک کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور اگر جو کسی کو علم ہوجائے کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے تو وہ ہزار تدبیریں کر لے۔ سینکڑوں حیلے بہانے سوچ لے اور وقت کے ہر وار کو اسی پر لوٹا دے۔ مگر یہی تو نہیں ہوتا۔ انسان بےخبر ہی رہ جاتا ہے اور جب وہ باخبر ہوتا ہے تو طوفان اپنی تباہکاریوں کے بعد واپس جاچکا ہوتا ہے صرف اس کے اثرات باقی رہ جاتے ہیں ـــــــــــــــــــ!!!!

(فاخرہ جبیں کے ناولٹ ’’خوشبو کے دریچے کھلے‘‘ سے اقتباس)

●★ღஐ متاع جَاں ஐღ★●



https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982
 

اللہ تعالی کی رضا کیلئے حج



حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے اللہ تعالی کی رضا کیلئے حج کیا اور اس دوران کوئی بیہودہ بات یا گناہ نہ کیا وہ حج کرکے اس دن کی طرح (گناہوں سے پاک) لوٹے گا جس طرح اس کی ماں نے اسے (گناہوں سے پاک) جنا تھا۔
(بخاری: 1431)

#اجالا
 
 
 
 

حلال طریقہ سے یا حرام


صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
23. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}:
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ ”اے ایمان والو! سود در سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاس کو“۔
حدیث نمبر: 2083

(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا ابن ابي ذئب، حدثنا سعيد المقبري، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لياتين على الناس زمان لا يبالي المرء بما اخذ المال، امن حلال ام من حرام".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان اس کی پرواہ نہیں کرے گا کہ مال اس نے کہاں سے لیا، حلال طریقہ سے یا حرام طریقہ سے۔
 

زلزلوں



کبھی سائنس کے میزان پر انگلی اٹھاتے ہیں
کبھی ہم ماہرین ارض کو الزام دیتے ہیں .......!!

حقیقت میں گناہوں سے زمینیں کانپ جاتی ہیں
جسے ہم اہل دنیا زلزلوں کا نام دیتے ہیں .......!!

أستغفر اللہ الذی لاإلہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ
--------——————–٭٭——————------------

#اجالا
 
 
 
 

دھوکہ دینا


  صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
27. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الْحَلِفِ فِي الْبَيْعِ:
باب: خرید و فروخت میں قسم کھانا مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 2088

(موقوف) حدثنا عمرو بن محمد، حدثنا هشيم، اخبرنا العوام، عن إبراهيم بن عبد الرحمن، عن عبد الله بن ابي اوفى رضي الله عنه،" ان رجلا اقام سلعة وهو في السوق، فحلف بالله، لقد اعطى بها ما لم يعط ليوقع فيها رجلا من المسلمين، فنزلت: إن الذين يشترون بعهد الله وايمانهم ثمنا قليلا سورة آل عمران آية 77 الآية".
ہم سے عمرو بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عوام بن حوشب نے خبر دی، انہیں ابراہیم بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے کہ بازار میں ایک شخص نے ایک سامان دکھا کر قسم کھائی کہ اس کی اتنی قیمت لگ چکی ہے۔ حالانکہ اس کی اتنی قیمت نہیں لگی تھی اس قسم سے اس کا مقصد ایک مسلمان کو دھوکہ دینا تھا۔ اس پر یہ آیت اتری «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا» جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت کے بدلہ میں بیچتے ہیں۔

(رحمت کے) فرشتے

صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
40. بَابُ التِّجَارَةِ فِيمَا يُكْرَهُ لُبْسُهُ لِلرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ:
باب: ان چیزوں کی سوداگری جن کا پہننا مردوں اور عورتوں کے لیے مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 2104

(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا ابو بكر بن حفص، عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن ابيه، قال:" ارسل النبي صلى الله عليه وسلم إلى عمر رضي الله عنه بحلة حرير او سيراء، فرآها عليه، فقال: إني لم ارسل بها إليك لتلبسها، إنما يلبسها من لا خلاق له، إنما بعثت إليك لتستمتع بها يعني تبيعها".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن حفص نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ان کے باپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کے یہاں ایک ریشمی جبہ بھیجا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ عمر رضی اللہ عنہ اسے (ایک دن) پہنے ہوئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اسے تمہارے پاس اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ تم اسے پہن لو، اسے تو وہی لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ میں نے تو اس لیے بھیجا تھا کہ تم اس سے (بیچ کر) فائدہ اٹھاؤ۔
حدیث نمبر: 2105

(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن نافع، عن القاسم بن محمد، عن عائشة ام المؤمنين رضي الله عنها، انها اخبرته: انها اشترت نمرقة فيها تصاوير، فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم، قام على الباب فلم يدخله، فعرفت في وجهه الكراهية، فقلت: يا رسول الله، اتوب إلى الله وإلى رسوله صلى الله عليه وسلم، ماذا اذنبت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما بال هذه النمرقة؟ قلت: اشتريتها لك لتقعد عليها وتوسدها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن اصحاب هذه الصور يوم القيامة يعذبون، فيقال لهم: احيوا ما خلقتم، وقال:" إن البيت الذي فيه الصور لا تدخله الملائكة".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں قاسم بن محمد نے اور انہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ انہوں نے ایک گدا خریدا جس پر مورتیں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر جوں ہی اس پر پڑی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے پر ہی کھڑے ہو گئے اور اندر داخل نہیں ہوئے۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو عرض کیا، یا رسول اللہ! میں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگتی ہوں، فرمائیے مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ گدا کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ میں نے یہ آپ ہی کے لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور اس سے ٹیک لگائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لیکن اس طرح کی مورتیں بنانے والے لوگ قیامت کے دن عذاب کئے جائیں گے۔ اور ان سے کہا جائے گا کہ تم لوگوں نے جس چیز کو بنایا اسے زندہ کر دکھاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جن گھروں میں تصویریں ہوتی ہیں (رحمت کے) فرشتے ان میں داخل نہیں ہوتے۔

المسلم اخو المسلم


صحيح البخاري
كِتَاب الْمَظَالِمِ
کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
3. بَابُ لاَ يَظْلِمُ الْمُسْلِمُ الْمُسْلِمَ وَلاَ يُسْلِمُهُ:
باب: کوئی مسلمان کسی مسلمان پر ظلم نہ کرے اور نہ کسی ظالم کو اس پر ظلم کرنے دے۔
حدیث نمبر: 2442

(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، ان سالما اخبره، ان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" المسلم اخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه، ومن كان في حاجة اخيه كان الله في حاجته، ومن فرج عن مسلم كربة فرج الله عنه كربة من كربات يوم القيامة، ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں سالم نے خبر دی، اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، پس اس پر ظلم نہ کرے اور نہ ظلم ہونے دے۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا۔

ﺍﮮ میرے ﮐُﻦ ﻓﯿﮑُﻮﻥ


 ﺍﮮ  میرے  ﮐُﻦ ﻓﯿﮑُﻮﻥ

میرے  ﺧﺎﻟﻖ
 ﺍﮮ  میرے  ﮐُﻦ ﻓﯿﮑُﻮﻥ
ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ ﺗﺮﺍﺷﺎ ہوﺍ ، ﭘﯿﮑﺮ ہوﮞ تیرا
ﮐﺲ ﻟﺌﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﺳﺘﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ، ﺑﻼﺅﮞ ﺧﻮﺩ ﻣﯿﮟ ؟
ﺧﺎﮎ ہوﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ، میرے ﻣﻮﻻ ﻃﻠﺐ ﯾﮧ ﮐﯿﻮﮞ  ہے؟؟
ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ  ﮐﻮ  ﮐﺴﯽ  ﻃﻮﺭ ، ﻣﻼﺅﮞ ﺧﻮﺩ ﻣﯿﮟ ....
ﻣﯿﮟ  ﺟﻮ ذﺭﮦ ہوﮞ  ،  ﺗﮍﭖ ﮐﯿﻮﮞ  ہے ﺳﺘﺎﺭﻭﮞ  ﻣﯿﮟ
ﮈﮬﻠﻮﮞ؟؟
ﺳﺮﺩ  ﮬﻮﮞ ﺧﺎﮎ  ہوﮞ ، ﭘﮭﺮ ﮐﺲ  ﻟﺌﮯ ﺷﻌﻠﻮﮞ  ﻣﯿﮟ ﺟﻠﻮﮞ؟؟
میرے  ﺍﻧﺪﺭ ﺟﻮ ، ﺧﻼﺅﮞ  ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﺟﺎﺭﯼ ہے
ﺑﮍﯼ  ﺑﮯ ﭼﯿﻨﯽ  ہے ، ﺑﮯ ﺧﻮﺍﺑﯽ  ہے ،  ﺑﯿﺪﺍﺭﯼ ہے
ﺗﺸﻨﮕﯽ  ﭼﺒﮭﺘﯽ  ہے ، حُلْقُوم  ﻣﯿﮟ ، ﮐﺎﻧﭩﮯ  ﮐﯽ  ﻃﺮﺡ
ﺍﻭﺭ ﮐﮩﯿﮟ ﺣﺪ  ﺳﮯ ، ﮔﺰﺭ  ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ  ﺳﺮ ﺷﺎﺭﯼ  ہے
ﻣﯿﮟ  ﺟﻮ  ﻣﭩﯽ  ہوﮞ ، ﺗﻮ ﮐﯿﻮﮞ  ﺧﻮﺩ  ﮐﻮ ، ﺳﺘﺎﺭﮦ  ﺳﻤﺠﮭﻮﮞ؟؟
ﮐﯿﻮﮞ  ﺑﮭﻨﻮﺭ ﺩﺭﺩ  ﮐﻮ ، ﻣﯿﮟ  ﺍﭘﻨﺎ  ﮐﻨﺎﺭﮦ  ﺳﻤﺠﮭﻮﮞ؟؟
میرے ﺧﺎﻟﻖ
ﺍﮮ میرے ﮐُﻦ ﻓﯿﮑُﻮﻥ
ﺗﯿﺮﯼ  ﺣﺪ  ﺳﮯ ﻣﯿﮟ  ﮐﮩﺎﮞ ، ﺩﻭﺭ ﻧﮑﻞ  ﺳﮑﺘﺎ  ہوﮞ؟
ﺗﯿﺮﯼ  ﻣﺮﺿﯽ  ہے ﻣﺠﮭﮯ ، ﺗﻮﮌ  ﺩﮮ ﺍﻭﺭ  ﭘﮭﺮ ﺳﮯ  ﺑﻨﺎ
 ﭘﮭﺮ  ﻣﺠﮭﮯ  ﺧﺎﮎ ﻧﺸﯿﻦ  ﮐﺮ  ﮐﮯ ، ﯾﻮﻧﮩﯽ  ﺟﯿﻨﺎ  ﺳﮑﮭﺎ
میرے  ﺍﻧﺪﺭ ﺟﻮ  ﺧﻼ ہے  ، ﻣﯿﺮﮮ  ﻣﺎﻟﮏ  ﺑﮭﺮ  ﺩﮮ
ﺗﻮ  ﻧﮯ ﺟﻮ  ﺧﺎﺹ  ﺗﻮﺟﮧ ﺳﮯ ، ﺑﻨﺎﯾﺎ  ہے  ﯾﮧ  ﺩﻝ
اس  کو  ﻣﭩﯽ  ﻣﯿﮟ  ﻣﻼ ﺩﮮ ، ﯾﺎ  ﺗﻮ  ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮ ﺩﮮ
ﻣﯿﺮﮮ ﺧﺎﻟﻖ  ﻣﯿﮟ ،  تیرے "ﮐُﻦ "  ﮐﯽ  ﻃﻠﺐ  ﻣﯿﮟ  ﺯﻧﺪﮦ
ہر ﮔﮭﮍﯼ  ، ﺍﯾﮏ  ﻗﯿﺎﻣﺖ  ﺳﮯ ، ﮔﺰﺭ  ﺟﺎﺗﺎ  ہوﮞ
ﺍﺗﻨﯽ  ﺷﺪﺕ  ﺳﮯ ، میرا  ﭘﮩﻠﻮ  ﺳﻠﮓ  ﺍﭨﮭﺘﺎ  ہے
ﺿﺒﻂ  ﮐﯽ  ﺣﺪ  ﺳﮯ ، ﮔﺰﺭ  ﺟﺎﺗﺎ  ہوﮞ
 ﻣﺮ ﺟﺎﺗﺎ ہوﮞ
میرے  ﺧﺎﻟﻖ
 ﺍﮮ  میرے  ﮐُﻦ ﻓﯿﮑُﻮﻥ

سات چیزوں کا حکم

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَظَالِمِ
کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
5. بَابُ نَصْرِ الْمَظْلُومِ:
باب: مظلوم کی مدد کرنا واجب ہے۔
حدیث نمبر: 2445

(مرفوع) حدثنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن الاشعث بن سليم، قال: سمعت معاوية بن سويد، سمعت البراء بن عازب رضي الله عنهما، قال:" امرنا النبي صلى الله عليه وسلم بسبع، ونهانا عن سبع، فذكر: عيادة المريض، واتباع الجنائز، وتشميت العاطس، ورد السلام، ونصر المظلوم، وإجابة الداعي، وإبرار المقسم".
ہم سے سعید بن ربیع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اشعث بن سلیم نے بیان کیا، کہ میں نے معاویہ بن سوید سے سنا، انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے بیان کیا تھا کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات چیزوں کا حکم فرمایا تھا اور سات ہی چیزوں سے منع بھی فرمایا تھا (جن چیزوں کا حکم فرمایا تھا ان میں) انہوں نے مریض کی عیادت، جنازے کے پیچھے چلنے، چھینکنے والے کا جواب دینے، سلام کا جواب دینے، مظلوم کی مدد کرنے، دعوت کرنے والے (کی دعوت) قبول کرنے، اور قسم پوری کرنے کا ذکر کیا۔
حدیث نمبر: 2446
(مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا ابو اسامة، عن بريد، عن ابي بردة، عن ابي موسى رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا، وشبك بين اصابعه".
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مومن دوسرے مومن کے ساتھ ایک عمارت کے حکم میں ہے کہ ایک کو دوسرے سے قوت پہنچتی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے اندر کیا۔
 

میں نے بدتمیز لوگوں سے



میں نے بدتمیز لوگوں سے تمیز سیکھی ہے، باتونی لوگوں سے خاموشی سیکھی ہے اور بے ادب لوگوں سے ادب سیکھا ہے۔

(خلیل جبران)

●◄ #صنم
 
 

" عزت دار "



٭اپنے قرابت داروں کی کمزوریاں اچھالنے والے

٭دوسروں کی عزتوں پر باتیں بنانے والے

٭خود کو خاندانی اور دوسروں کو کمتر سمجھنے والے کبھی
بھی " عزت دار " نہیں ہوتے ...

#اجالا
 
 
https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982
 

مظلوم کی بددعا


صحيح البخاري
كِتَاب الْمَظَالِمِ
کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
9. بَابُ الاِتِّقَاءِ وَالْحَذَرِ مِنْ دَعْوَةِ الْمَظْلُومِ:
باب: مظلوم کی بددعا سے بچنا اور ڈرتے رہنا۔
حدیث نمبر: 2448

(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا وكيع، حدثنا زكرياء بن إسحاق المكي، عن يحيى بن عبد الله بن صيفي، عن ابي معبد مولى ابن عباس، عن ابن عباس رضي الله عنهما، ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث معاذا إلى اليمن، فقال:" اتق دعوة المظلوم، فإنها ليس بينها وبين الله حجاب".
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا بن اسحاق مکی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن عبداللہ صیفی نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ابومعبد نے، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب (عامل بنا کر) یمن بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس (دعا) کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔