Thursday, January 21, 2016

تمہاری دید کا پیاسا ہوں جام ہو جائے


تمہاری دید کا پیاسا ہوں جام ہو جائے
بچھا دیا ہے یہ دل خرام ہو جائے

حضور دیجئے اذنِ مدینہ اب جلدی
نہ جانے کب میری دنیا میں شام ہو جائے

جہاں پہ ملتی ہے مر کےحیاتِ جاوداں
وہیں پہ عمر میری بھی تمام ہو جائے

#صلی_اللہ_علیہ_وسلم

آج جمعہ کامبارک دن ہے زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں

●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
اللَّهُـمّ صَــــــلٌ علَےَ مُحمَّــــــــدْ و علَےَ آل مُحمَّــــــــدْ
كما صَــــــلٌيت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ
مَجِيدٌ اللهم بارك علَےَ مُحمَّــــــــدْ و علَےَ آل مُحمَّــــــــدْ كما
باركت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●

ایڈمن:#صنم
 
https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982
 

نظر بد کا لگنا


صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
36. بَابُ الْعَيْنُ حَقٌّ:
باب: نظر بد کا لگنا حق ہے۔
حدیث نمبر: 5740

(مرفوع) حدثنا إسحاق بن نصر، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن همام، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" العين حق ونهى عن الوشم".
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نظر بد لگنا حق ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جسم پر گودنے سے منع فرمایا۔

شفاء کے لیے دم

صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
38. بَابُ رُقْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (بیماری سے شفاء کے لیے) دم۔
حدیث نمبر: 5742

(موقوف) حدثنا مسدد، حدثنا عبد الوارث، عن عبد العزيز، قال:" دخلت انا وثابت على انس بن مالك، فقال ثابت: يا ابا حمزة اشتكيت، فقال انس: الا ارقيك برقية رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: بلى، قال: اللهم رب الناس مذهب الباس، اشف انت الشافي لا شافي إلا انت، شفاء لا يغادر سقما".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا کہ میں اور ثابت بنانی انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ثابت نے کہا: ابوحمزہ! (انس رضی اللہ عنہ کی کنیت) میری طبیعت خراب ہو گئی ہے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا پھر کیوں نہ میں تم پر وہ دعا پڑھ کر دم کر دوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے، ثابت نے کہا کہ ضرور کیجئے۔ انس رضی اللہ عنہ نے اس پر یہ دعا پڑھ کر دم کیا «اللهم رب الناس مذهب الباس اشف أنت الشافي لا شافي إلا أنت،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ شفاء لا يغادر سقما» اے اللہ! لوگوں کے رب! تکلیف کو دور کر دینے والے! شفاء عطا فرما، تو ہی شفاء دینے والا ہے تیرے سوا کوئی شفاء دینے والا نہیں، ایسی شفاء عطا فرما کہ بیماری بالکل باقی نہ رہے۔
حدیث نمبر: 5743

(مرفوع) حدثنا عمرو بن علي، حدثنا يحيى، حدثنا سفيان، حدثني سليمان، عن مسلم، عن مسروق، عن عائشة رضي الله عنها" ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يعوذ بعض اهله يمسح بيده اليمنى، ويقول: اللهم رب الناس، اذهب الباس اشفه وانت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما"، قال سفيان، حدثت به منصورا، فحدثني عن إبراهيم، عن مسروق، عن عائشة نحوه.
ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے سلیمان اعمش نے، ان سے مسلم بن صبیح نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے بعض (بیماروں) پر یہ دعا پڑھ کر دم کرتے اور اپنا داہنا ہاتھ پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے «اللهم رب الناس أذهب الباس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اشفه وأنت الشافي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لا شفاء إلا شفاؤك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ شفاء لا يغادر سقما» اے اللہ! لوگوں کے پالنے والے! تکلیف کو دور کر دے، اسے شفاء دیدے تو ہی شفاء دینے والا ہے۔ تیری شفاء کے سوا کوئی شفاء نہیں، ایسی شفاء (دے) کہ کسی قسم کی بیماری باقی نہ رہ جائے۔ سفیان ثوری نے بیان کیا کہ میں نے یہ دعا منصور بن معتمر کے سامنے بیان کی تو انہوں نے مجھ سے یہ ابراہیم نخعی سے بیان کی، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی طرح بیان کی۔
حدیث نمبر: 5744

(مرفوع) حدثني احمد ابن ابي رجاء، حدثنا النضر، عن هشام بن عروة، قال: اخبرني ابي، عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان يرقي يقول امسح الباس رب الناس بيدك الشفاء لا كاشف له إلا انت.
مجھ سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے نضر بن شمیل نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دم کیا کرتے تھے اور یہ دعا پڑھتے تھے «امسح الباس رب الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏بيدك الشفاء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏لا كاشف له إلا أنت‏"‏‏.‏» تکلیف کو دور کر دے، اے لوگوں کے پالنہار! تیرے ہی ہاتھ میں شفاء ہے، تیرے سوا تکلیف کو دور کرنے والا کوئی اور نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 5745

(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال: حدثني عبد ربه بن سعيد، عن عمرة، عن عائشة رضي الله عنها، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول للمريض:" بسم الله تربة ارضنا بريقة بعضنا يشفى سقيمنا بإذن ربنا".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدربہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے عمرہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مریض کے لیے (کلمے کی انگلی زمین پر لگا کر) یہ دعا پڑھتے تھے «بسم الله،‏‏‏‏ تربة أرضنا‏.‏ بريقة بعضنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏يشفى سقيمنا بإذن ربنا‏"‏‏.» اللہ کے نام کی مدد سے ہماری زمین کی مٹی ہم میں سے کسی کے تھوک کے ساتھ تاکہ ہمارا مریض شفاء پائے ہمارے رب کے حکم سے۔
حدیث نمبر: 5746

(مرفوع) حدثني صدقة بن الفضل، اخبرنا ابن عيينة، عن عبد ربه بن سعيد، عن عمرة، عن عائشة قالت:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يقول في الرقية:" تربة ارضنا، وريقة بعضنا يشفى سقيمنا بإذن ربنا".
مجھ سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن عیینہ نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن سعید نے، انہیں عمرہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دم کرتے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے «تربة أرضنا،‏‏‏‏‏‏‏‏ وريقة بعضنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏يشفى سقيمنا،‏‏‏‏‏‏‏‏ بإذن ربنا‏"‏‏.» ہماری زمین کی مٹی اور ہمارا بعض تھوک ہمارے رب کے حکم سے ہمارے مریض کو شفاء ہو۔

ﻧﻔﺮﺕ



ﻧﻔﺮﺕ ﮐﺎ ﯾﻘﯿﻦ ﺩﻻﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺗﺎ , ﺟﺒﮑﮧ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﻟﻮﮒ ﺛﺒﻮﺕ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯﮨﯿﮟ۔

-♡- متاع جَاں -♡-
 
 
 

یاد رکھیے



یاد رکھیے!!!

لوگ آپ کے بارے میں سنی گئی اچھائی کی تصدیق کریں گے، اور برائی پر بلا تصدیق اور بغیر سوچے سمجھے یقین کر لیں گے۔

#اجالا
 
 
 
 

یمار پر دم


صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
40. بَابُ مَسْحِ الرَّاقِي الْوَجَعَ بِيَدِهِ الْيُمْنَى:
باب: بیمار پر دم کرتے وقت درد کی جگہ پر داہنا ہاتھ پھیرنا۔
حدیث نمبر: 5750

(مرفوع) حدثني عبد الله بن ابي شيبة، حدثنا يحيى، عن سفيان، عن الاعمش، عن مسلم، عن مسروق، عن عائشة رضي الله عنها قالت:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يعوذ بعضهم يمسحه بيمينه اذهب الباس رب الناس واشف انت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما"، فذكرته لمنصور، فحدثني، عن إبراهيم، عن مسروق، عن عائشة بنحوه.
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم بن ابوالصبیح نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے گھر کے) بعض لوگوں پر دم کرتے وقت اپنا داہنا ہاتھ پھیرتے (اور یہ دعا پڑھتے تھے) «أذهب الباس رب الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏واشف أنت الشافي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏لا شفاء إلا شفاؤك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏شفاء لا يغادر سقما» تکلیف کو دور کر دے اے لوگوں کے رب! اور شفاء دے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، شفاء وہی ہے جو تیری طرف سے ہو ایسی شفاء کہ بیماری ذرا بھی باقی نہ رہ جائے۔ (سفیان نے کہا کہ) پھر میں نے یہ منصور سے بیان کیا تو انہوں نے مجھ سے ابراہیم نخعی سے بیان کیا، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس ہی کی طرح بیان کیا۔

جادو کا بیان


صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
47. بَابُ السِّحْرِ:
باب: جادو کا بیان۔
حدیث نمبر: Q5763

وقول الله تعالى: ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر وما انزل على الملكين ببابل هاروت وماروت وما يعلمان من احد حتى يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء وزوجه وما هم بضارين به من احد إلا بإذن الله ويتعلمون ما يضرهم ولا ينفعهم ولقد علموا لمن اشتراه ما له في الآخرة من خلاق سورة البقرة آية 102 وقوله تعالى: ولا يفلح الساحر حيث اتى سورة طه آية 69 وقوله: افتاتون السحر وانتم تبصرون سورة الانبياء آية 3 وقوله يخيل إليه من سحرهم انها تسعى سورة طه آية 66 وقوله ومن شر النفاثات في العقد سورة الفلق آية 4 والنفاثات: السواحر، تسحرون تعمون
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان اور لیکن شیطانوں نے کفر کیا کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور (وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے) جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتاری گئی، حالانکہ وہ دونوں کسی ایک کو نہیں سکھاتے تھے، یہاں تک کہ کہتے ہم تو محض ایک آزمائش ہیں، سو تو کفر نہ کر۔ پھر وہ ان دونوں سے وہ چیز سیکھتے جس کے ساتھ وہ مرد اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے اور وہ اس کے ساتھ ہرگز کسی کو نقصان پہنچانے والے نہ تھے مگر اللہ کے اذن کے ساتھ۔ اور وہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو انہیں نقصان پہنچاتی اور انہیں فائدہ نہ دیتی تھی۔ حالانکہ بلاشبہ یقیناً وہ جان چکے تھے کہ جس نے اسے خریدا آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں اور اللہ تعالیٰ کا فرمان اور جادوگر کامیاب نہیں ہوتا جہاں سے بھی آئے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان تو کیا تم جادو کے پاس آتے ہو، حالانکہ تم دیکھ رہے ہو؟ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان اس کے خیال میں ڈالا جاتا تھا، ان کے جادو کی وجہ سے کہ واقعی وہ دوڑ رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا فرمان اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے گرہوں میں پھونکنے والیوں سے مراد جادوگرنیاں۔ «تسحرون» تم اندھے بنتے ہو۔
حدیث نمبر: 5763

(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا عيسى بن يونس، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" سحر رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل من بني زريق، يقال له لبيد بن الاعصم، حتى كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخيل إليه انه كان يفعل الشيء وما فعله، حتى إذا كان ذات يوم او ذات ليلة وهو عندي لكنه دعا ودعا، ثم قال: يا عائشة: اشعرت ان الله افتاني فيما استفتيته فيه، اتاني رجلان فقعد احدهما عند راسي والآخر عند رجلي، فقال احدهما لصاحبه: ما وجع الرجل؟، فقال: مطبوب، قال: من طبه؟، قال: لبيد بن الاعصم، قال: في اي شيء؟، قال: في مشط، ومشاطة وجف طلع نخلة ذكر، قال: واين هو؟، قال: في بئر ذروان، فاتاها رسول الله صلى الله عليه وسلم في ناس من اصحابه، فجاء، فقال: يا عائشة كان ماءها نقاعة الحناء او كان رءوس نخلها رءوس الشياطين، قلت: يا رسول الله افلا استخرجته، قال: قد عافاني الله فكرهت ان اثور على الناس فيه شرا، فامر بها، فدفنت"، تابعه ابو اسامة، وابو ضمرة، وابن ابي الزناد، عن هشام، وقال الليث , وابن عيينة، عن هشام في مشط ومشاقة، يقال المشاطة: ما يخرج من الشعر إذا مشط، والمشاقة من مشاقة الكتان.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ اشعری نے بیان کیا، کہا ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بنی زریق کے ایک شخص یہودی لبید بن اعصم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا تھا اور اس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کے متعلق خیال کرتے کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ آپ نے وہ کام نہ کیا ہوتا۔ ایک دن یا (راوی نے بیان کیا کہ) ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف رکھتے تھے اور مسلسل دعا کر رہے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ! تمہیں معلوم ہے اللہ سے جو بات میں پوچھ رہا تھا، اس نے اس کا جواب مجھے دے دیا۔ میرے پاس دو (فرشتے جبرائیل و میکائیل علیہما السلام) آئے۔ ایک میرے سر کی طرف کھڑا ہو گیا اور دوسرا میرے پاؤں کی طرف۔ ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے پوچھا ان صاحب کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ان پر جادو ہوا ہے۔ اس نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے۔ پوچھا کس چیز میں؟ جواب دیا کہ کنگھے اور سر کے بال میں جو نر کھجور کے خوشے میں رکھے ہوئے ہیں۔ سوال کیا اور یہ جادو ہے کہاں؟ جواب دیا کہ زروان کے کنویں میں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں پر اپنے چند صحابہ کے ساتھ تشریف لے گئے اور جب واپس آئے تو فرمایا عائشہ! اس کا پانی ایسا (سرخ) تھا جیسے مہندی کا نچوڑ ہوتا ہے اور اس کے کھجور کے درختوں کے سر (اوپر کا حصہ) شیطان کے سروں کی طرح تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے اس جادو کو باہر کیوں نہیں کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے عافیت دے دی اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اب میں خواہ مخواہ لوگوں میں اس برائی کو پھیلاؤں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جادو کا سامان کنگھی بال خرما کا غلاف ہوتے ہیں اسی میں دفن کرا دیا۔ عیسیٰ بن یونس کے ساتھ اس حدیث کو ابواسامہ اور ابوضمرہ (انس بن عیاض) اور ابن ابی الزناد تینوں نے ہشام سے یوں روایت کیا اور لیث بن مسور اور سفیان بن عیینہ نے ہشام سے یوں روایت کیا ہے «في مشط ومشاقة‏.‏، المشاطة» اسے کہتے ہیں جو بال کنگھی کرنے میں نکلیں سر یا داڑھی کے اور «مشاقة‏.‏» روئی کے تار یعنی سوت کے تار کو کہتے ہیں۔

 

 

شرک اور جادو

صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
48. بَابُ الشِّرْكُ وَالسِّحْرُ مِنَ الْمُوبِقَاتِ:
باب: شرک اور جادو ان گناہوں میں سے ہیں جو آدمی کو تباہ کر دیتے ہیں۔
حدیث نمبر: 5764

(مرفوع) حدثني عبد العزيز بن عبد الله، قال: حدثني سليمان، عن ثور بن زيد، عن ابي الغيث، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" اجتنبوا الموبقات الشرك بالله والسحر".
مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ثور بن زید نے، ان سے ابوالغیث نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تباہ کر دینے والی چیز اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے اس سے بچو اور جادو کرنے کرانے سے بھی بچو۔

جادو کا توڑ کرنا

صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
49. بَابُ هَلْ يَسْتَخْرِجُ السِّحْرَ:
باب: جادو کا توڑ کرنا۔
حدیث نمبر: Q5765

وقال قتادة: قلت لسعيد بن المسيب: رجل به طب او يؤخذ عن امراته ايحل عنه او ينشر؟، قال: لا باس به، إنما يريدون به الإصلاح، فاما ما ينفع الناس فلم ينه عنه.
قتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن مسیب سے کہا ایک شخص پر اگر جادو ہو یا اس کی بیوی تک پہنچنے سے اسے باندھ دیا گیا ہو اس کا دفعیہ کرنا اور جادو کے باطل کرنے کے لیے منتر کرنا درست ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں جادو دفع کرنے والوں کی تو نیت بخیر ہوتی ہے اور اللہ پاک نے اس بات سے منع نہیں فرمایا جس سے فائدہ ہو۔
حدیث نمبر: 5765

(مرفوع) حدثني عبد الله بن محمد، قال: سمعت ابن عيينة، يقول: اول من حدثنا به ابن جريج، يقول: حدثني آل عروة، عن عروة، فسالت هشاما عنه، فحدثنا، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم سحر حتى كان يرى انه ياتي النساء ولا ياتيهن"، قال سفيان: وهذا اشد ما يكون من السحر، إذا كان كذا، فقال: يا عائشة اعلمت ان الله قد افتاني فيما استفتيته فيه، اتاني رجلان فقعد احدهما عند راسي والآخر عند رجلي، فقال الذي عند راسي للآخر، ما بال الرجل؟، قال: مطبوب، قال: ومن طبه؟، قال: لبيد بن اعصم رجل من بني زريق حليف ليهود كان منافقا، قال: وفيم؟ قال: في مشط ومشاقة، قال: واين؟ قال: في جف طلعة ذكر تحت راعوفة في بئر ذروان، قالت: فاتى النبي صلى الله عليه وسلم البئر حتى استخرجه، فقال: هذه البئر التي اريتها، وكان ماءها نقاعة الحناء، وكان نخلها رءوس الشياطين، قال: فاستخرج، قالت: فقلت افلا اي تنشرت، فقال: اما الله فقد شفاني، واكره ان اثير على احد من الناس شرا".
مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سفیان بن عیینہ سے سنا، کہا کہ سب سے پہلے یہ حدیث ہم سے ابن جریج نے بیان کی، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھ سے یہ حدیث آل عروہ نے عروہ سے بیان کی، اس لیے میں نے (عروہ کے بیٹے) ہشام سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ہم سے اپنے والد (عروہ) سے بیان کیا کہ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا گیا تھا اور اس کا آپ پر یہ اثر ہوا تھا آپ کو خیال ہوتا کہ آپ نے ازواج مطہرات میں سے کسی کے ساتھ ہمبستری کی ہے حالانکہ آپ نے کی نہیں ہوتی۔ سفیان ثوری نے بیان کیا کہ جادو کی یہ سب سے سخت قسم ہے جب اس کا یہ اثر ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! تمہیں معلوم ہے اللہ تعالیٰ سے جو بات میں نے پوچھی تھی اس کا جواب اس نے کب کا دے دیا ہے۔ میرے پاس دو فرشتے آئے ایک میرے سر کے پاس کھڑا ہو گیا اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس۔ جو فرشتہ میرے سر کی طرف کھڑا تھا اس نے دوسرے سے کہا ان صاحب کا کیا حال ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو کر دیا گیا ہے۔ پوچھا کہ کس نے ان پر جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے یہ یہودیوں کے حلیف بنی زریق کا ایک شخص تھا اور منافق تھا۔ سوال کیا کہ کس چیز میں ان پر جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ کنگھے اور بال میں۔ پوچھا جادو ہے کہاں؟ جواب دیا کہ نر کھجور کے خوشے میں جو زروان کے کنویں کے اندر رکھے ہوئے پتھر کے نیچے دفن ہے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں پر تشریف لے گئے اور جادو اندر سے نکالا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وہ کنواں ہے جو مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا اس کا پانی مہندی کے عرق جیسا رنگین تھا اور اس کے کھجور کے درختوں کے سر شیطانوں کے سروں جیسے تھے۔ بیان کیا کہ پھر وہ جادو کنویں میں سے نکالا گیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا آپ نے اس جادو کا توڑ کیوں نہیں کرایا۔ فرمایا: ہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دی اب میں لوگوں میں ایک شور ہونا پسند نہیں کرتا۔

جادو کے بیان میں

صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
50. بَابُ السِّحْرِ:
باب: جادو کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 5766

(مرفوع) حدثنا عبيد بن إسماعيل، حدثنا ابو اسامة، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة، قالت:" سحر النبي صلى الله عليه وسلم حتى إنه ليخيل إليه انه يفعل الشيء وما فعله، حتى إذا كان ذات يوم وهو عندي، دعا الله ودعاه، ثم قال: اشعرت يا عائشة ان الله قد افتاني فيما استفتيته فيه، قلت: وما ذاك يا رسول الله؟، قال: جاءني رجلان فجلس احدهما عند راسي والآخر عند رجلي، ثم قال: احدهما لصاحبه، ما وجع الرجل؟، قال: مطبوب، قال: ومن طبه؟، قال: لبيد بن الاعصم اليهودي من بني زريق، قال: فيما ذا؟ قال: في مشط ومشاطة وجف طلعة ذكر، قال: فاين هو؟ قال: في بئر ذي اروان، قال: فذهب النبي صلى الله عليه وسلم في اناس من اصحابه إلى البئر، فنظر إليها وعليها نخل ثم رجع إلى عائشة، فقال: والله لكان ماءها نقاعة الحناء، ولكان نخلها رءوس الشياطين، قلت: يا رسول الله افاخرجته؟ قال: لا، اما انا فقد عافاني الله، وشفاني، وخشيت ان اثور على الناس منه شرا"، وامر بها فدفنت.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا گیا تھا اور اس کا اثر یہ تھا کہ آپ کو خیال ہوتا کہ آپ کوئی چیز کر چکے ہیں حالانکہ وہ چیز نہ کی ہوتی ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف رکھتے تھے اور مسلسل دعائیں کر رہے تھے، پھر فرمایا: عائشہ! تمہیں معلوم ہے اللہ تعالیٰ سے جو بات میں نے پوچھی تھی اس کا جواب اس نے مجھے دے دیا ہے۔ میں نے عرض کی وہ کیا بات ہے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس دو فرشتے (جبرائیل و میکائیل علیہما السلام) آئے اور ایک میرے سر کے پاس کھڑا ہو گیا اور دوسرا پاؤں کی طرف پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا ان صاحب کی تکلیف کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے۔ پوچھا کس نے ان پر جادو کیا ہے؟ فرمایا بنی زریق کے لبید بن اعصم یہودی نے، پوچھا کس چیز میں؟ جواب دیا کہ کنگھے اور بال میں جو نر کھجور کے خوشے میں رکھا ہوا ہے۔ پوچھا اور وہ جادو رکھا کہاں ہے؟ جواب دیا کہ ذروان کے کنویں میں۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور اسے دیکھا وہاں کھجور کے درخت بھی تھے پھر آپ واپس عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لائے اور فرمایا صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم! اس کا پانی مہندی کے عرق جیسا (سرخ) ہے اور اس کے کھجور کے درخت شیاطین کے سروں جیسے ہیں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کنگھی بال وغیرہ غلاف سے نکلوائے یا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، سن لو اللہ نے تو مجھ کو شفاء دے دی، تندرست کر دیا اب میں ڈرا کہیں لوگوں میں ایک شور نہ پھیلے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سامان کے گاڑ دینے کا حکم دیا وہ گاڑ دیا گیا۔

 

امراض میں چھوت لگنا

صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
54. بَابُ لاَ عَدْوَى:
باب: امراض میں چھوت لگنے کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 5772

(مرفوع) حدثنا سعيد بن عفير، قال: حدثني ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، قال: اخبرني سالم بن عبد الله، وحمزة، ان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا عدوى ولا طيرة، إنما الشؤم في ثلاث: في الفرس، والمراة، والدار".
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ اور حمزہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوت لگ جانے کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بدشگونی کی کوئی اصل نہیں۔ (اگر ممکن ہوتی تو) نحوست تین چیزوں میں ہوتی، گھوڑے میں، عورت میں اور گھر میں۔
حدیث نمبر: 5773

(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: حدثني ابو سلمة بن عبد الرحمن، ان ابا هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا عدوى".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوت کی کوئی حقیقت نہیں۔
حدیث نمبر: 5774

(مرفوع) قال ابو سلمة بن عبد الرحمن: سمعت ابا هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا توردوا الممرض على المصح".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مریض اونٹوں والا اپنے اونٹ تندرست اونٹوں والے کے اونٹ میں نہ چھوڑے۔
حدیث نمبر: 5775
(مرفوع) وعن الزهري، قال: اخبرني سنان بن ابي سنان الدؤلي، ان ابا هريرة رضي الله عنه، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا عدوى"، فقام اعرابي فقال: ارايت الإبل تكون في الرمال امثال الظباء، فياتيها البعير الاجرب فتجرب، قال النبي صلى الله عليه وسلم" فمن اعدى الاول".
اور زہری سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سنان بن ابی سنان الدؤلی نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوت کوئی چیز نہیں ہے۔ اس پر ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر پوچھا آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک اونٹ ریگستان میں ہرن جیسا صاف رہتا ہے لیکن جب وہی ایک خارش والے اونٹ کے پاس آ جاتا ہے تو اسے بھی خارش ہو جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی تھی۔
حدیث نمبر: 5776

(مرفوع) حدثني محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال: سمعت قتادة، عن انس بن مالك رضي الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا عدوى ولا طيرة، ويعجبني الفال"، قالوا: وما الفال، قال:" كلمة طيبة".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوت لگنا کوئی چیز نہیں ہے اور بدشگونی نہیں ہے البتہ نیک فال مجھے پسند ہے۔ صحابی نے عرض کیا نیک فال کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھی بات منہ سے نکالنا یا کسی سے سن لینا۔

زہر دیئے جانے سے متعلق بیان


صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
55. بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي سَمِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیئے جانے سے متعلق بیان۔
حدیث نمبر: Q5777

رواه عروة عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم.
اس قصہ کو عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔
حدیث نمبر: 5777

(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن ابي سعيد، عن ابي هريرة انه قال:" لما فتحت خيبر اهديت لرسول الله صلى الله عليه وسلم شاة فيها سم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اجمعوا لي من كان ها هنا من اليهود فجمعوا له، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم إني سائلكم عن شيء فهل انتم صادقي عنه، فقالوا: نعم يا ابا القاسم، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ابوكم؟، قالوا: ابونا فلان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كذبتم، بل ابوكم فلان، فقالوا: صدقت وبررت، فقال: هل انتم صادقي عن شيء إن سالتكم عنه؟ فقالوا: نعم يا ابا القاسم، وإن كذبناك عرفت كذبنا كما عرفته في ابينا، قال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: من اهل النار؟، فقالوا: نكون فيها يسيرا ثم تخلفوننا فيها، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، اخسئوا فيها، والله لا نخلفكم فيها ابدا، ثم قال لهم فهل انتم صادقي عن شيء إن سالتكم عنه؟، قالوا: نعم، فقال: هل جعلتم في هذه الشاة سما؟ فقالوا: نعم، فقال: ما حملكم على ذلك؟ فقالوا: اردنا إن كنت كذابا نستريح منك، وإن كنت نبيا لم يضرك".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے سعید بن ابی سعید نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے بیان کیا کہ جب خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بکری ہدیہ میں پیش کی گئی (ایک یہودی عورت زینب بنت حرث نے پیش کی تھی) جس میں زہر بھرا ہوا تھا، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں پر جتنے یہودی ہیں انہیں میرے پاس جمع کرو۔ چنانچہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع کئے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم سے ایک بات پوچھوں گا کیا تم مجھے صحیح صحیح بات بتا دو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اے ابوالقاسم! پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا پردادا کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ فلاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جھوٹ کہتے ہو تمہارا پردادا تو فلاں ہے۔ اس پر وہ بولے کہ آپ نے سچ فرمایا، درست فرمایا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کیا اگر میں تم سے کوئی بات پوچھوں گا تو تم مجھے سچ سچ بتا دو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اے ابوالقاسم! اور اگر ہم جھوٹ بولیں بھی تو آپ ہمارا جھوٹ پکڑ لیں گے جیسا کہ ابھی ہمارے پردادا کے متعلق آپ نے ہمارا جھوٹ پکڑ لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ والے کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ کچھ دن کے لیے تو ہم اس میں رہیں گے پھر آپ لوگ ہماری جگہ لے لیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو گے، واللہ! ہم اس میں تمہاری جگہ کبھی نہیں لیں گے۔ آپ نے پھر ان سے دریافت فرمایا کیا اگر میں تم سے ایک بات پوچھوں تو تم مجھے اس کے متعلق صحیح صحیح بتا دو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا، انہوں نے کہا کہ ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہیں اس کام پر کس جذبہ نے آمادہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ جھوٹے ہوں گے تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر سچے ہوں گے تو آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔