Thursday, October 29, 2015

تعجب ہے



تعجب ہے ! اللہ اپنی اتنی ساری مخلوق میں سے مجھے نہیں بھولتا۔
اور میرا تو ایک اللہ ہےمیں اسے بھی بھول جاتا ہوں؟‌

اللہ تعالیٰ ہمیں‌کبھی بھی غافلین میں‌سے نہ کرے اور ذاکرین میں‌سے کرے جن کے بارے میں‌اس کا فرمان ہے ۔

بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان (سب کے) لئے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑاثواب تیار کر رکھا ہے۔

وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا۔
(35) سورة الأحزاب

#اجالا
 
 
 
 https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982

زندگی ایک کتاب کی مانند ہے


انسان کی زندگی ایک کتاب کی مانند ہےکسی بھی ادھوری کتاب کے مطالعے سے نتائج اخذ کرنے کی کوشش اُلجھا کر رکھ دیتی ہے۔ہمارے آس پاس بسنے والے انسان اور مقدر کے رشتے ہمیں ہر گھڑی کوئی نہ کوئی نیا سبق دیتے ہیں۔ہر سبق پر دھیان دو اور اُس کی اہمیت کو تسلیم کرو۔ خاموشی سے ہر رنگ کو بس دیکھتے جاؤ محسوس کرو۔ مکمل تصویر اسی وقت سامنے آتی ہے جب کسی کی کتاب ِزندگی بند ہو جائے.....!!

●๋•!! متاع جَاں!! ●๋
 



 https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982

قرآن مجید کا علم


صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
20. بَابُ اغْتِبَاطِ صَاحِبِ الْقُرْآنِ:
باب: قرآن مجید پڑھنے والے پر رشک کرنا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 5025

(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: حدثني سالم بن عبد الله، ان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا حسد إلا على اثنتين: رجل آتاه الله الكتاب وقام به آناء الليل، ورجل اعطاه الله مالا فهو يتصدق به آناء الليل والنهار".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہو سکتا ہے ایک تو اس پر جسے اللہ نے قرآن مجید کا علم دیا اور وہ اس کے ساتھ رات کی گھڑیوں میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتا رہا اور دوسرا آدمی وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اسے محتاجوں پر رات دن خیرات کرتا رہا۔
حدیث نمبر: 5026

(مرفوع) حدثنا علي بن إبراهيم، حدثنا روح، حدثنا شعبة، عن سليمان، سمعت ذكوان، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا حسد إلا في اثنتين: رجل علمه الله القرآن فهو يتلوه آناء الليل وآناء النهار، فسمعه جار له، فقال: ليتني اوتيت مثل ما اوتي فلان فعملت مثل ما يعمل، ورجل آتاه الله مالا فهو يهلكه في الحق، فقال رجل: ليتني اوتيت مثل ما اوتي فلان فعملت مثل ما يعمل".
ہم سے علی بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، انہوں نے کہا میں نے ذکوان سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہونا چاہئے ایک اس پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا اور وہ رات دن اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے کہ اس کا پڑوسی سن کر کہہ اٹھے کہ کاش مجھے بھی اس جیسا علم قرآن ہوتا اور میں بھی اس کی طرح عمل کرتا اور وہ دوسرا جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے حق کے لیے لٹا رہا ہے (اس کو دیکھ کر) دوسرا شخص کہہ اٹھتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی اس کے جتنا مال ہوتا اور میں بھی اس کی طرح خرچ کرتا۔

گیلی مٹی


انسان شخصی ارتقا کے ابتدائی ادوار میں" گیلی مٹی " کی ماند ہوتےہیں۔ جنھیں معاشرے کا " کمہار " تربیت کے " چاک " پر دھرتا ہے اور بازار حیات کی " مانگ " کو مد نظر رکھ کر اپنی نیت اور چاہت کے ہاتھوں سے ایک خاص سانچیےمیں ڈھالتا ہے۔ اس قالب سازی کے دوران اس کی" انگلیاں" ہر " برتن " کے بدن پر ریتوں، رواجوں، مذہب، سیاست، جذبوں، خوابوں اور سرابوں کی ان گنت پیچیدہ تحریریں رقم کرتی ہیں۔ گیلی مٹی کے یہ " سانچے " حالات کے " آوے " میں ڈھلتے ہیں۔ ان مراحل س گزرتے ہوئے ہر برتن کا " ظرف "اور "نصیب " اس کے ہئیت کا تعین کرتا ہے۔ کچھ " سفال گر " کی بے توجہی کا شکار ہو جاتےہیں، کچھ اس کے اناڑی پن کی نظر ہوتے ہیں۔ کچھ " آوے " کی "دہک " برداشت نہیں کر پاتے اور تڑخ جاتے ہیں،کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بازار تک پہنچتے ہیں مگر انہیں کوئی " خریدار " میسر نہیں آتا۔ ان کا نصیب اور بازار کا اسلوب ہر " ظرف " کا مقام طے کرتا ہے۔ گل دان اور پیکدان میں ساخت کا فرق بھلے نہ ہو،مگر نصیب کا فرق ضرور ہوتا ہے۔

(بشریٰ سعید کے ناول ’’سفال گر‘‘ کے پیشِ لفظ سے اقتباس)



https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982

اچھے اخلاق کی دعاء


اچھے اخلاق کی دعاء

عَنْ عَآ ئِشَہَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ حَسَّنْتَ خَلْقِیْ فَاَحْسِنْ خُلْقِی۔ (رَوَاہُ اَحْمَدُ)

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم(یہ دعا) فرمایاکرتے تھے، اے اللہ! تو نے میری جسمانی تخلیق کو اچھا کیا ہے لہذا میرے اخلاق کو بھی اچھا بنا۔ (احمد)

اخلاق یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے اپنے اخلاق کو بد اخلاق نہ ہونے دیں۔

انسان اخلاق ہی سے بنتا ہے اور عمدہ سیرت سب سے بڑی سفارش ہوتی ہے اور انسان کی پہچان بھی اخلاق سے ہوتی ہے

اللہ رب العزت ہم سب کو اپنے پیارےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والے اخلاق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کی جملہ تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

پوسٹ پسند آئے تو اِسے شیئر ضرور کیجیے تاکہ ایک اچھی بات کو دوسروں تک پہنچائے جانے کا ذریعہ بن سکیں۔۔۔!!!

ایڈمن:#صنم
 

https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982

حافظ قرآن


صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
23. بَابُ اسْتِذْكَارِ الْقُرْآنِ وَتَعَاهُدِهِ:
باب: قرآن مجید کو ہمیشہ پڑھتے اور یاد کرتے رہنا۔
حدیث نمبر: 5031

(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إنما مثل صاحب القرآن كمثل صاحب الإبل المعقلة، إن عاهد عليها امسكها، وإن اطلقها ذهبت".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حافظ قرآن کی مثال رسی سے بندھے ہوئے اونٹ کے مالک جیسی ہے اور وہ اس کی نگرانی رکھے گا تو وہ اسے روک سکے گا ورنہ وہ رسی تڑوا کر بھاگ جائے گا۔
حدیث نمبر: 5032
(مرفوع) حدثنا محمد بن عرعرة، حدثنا شعبة، عن منصور، عن ابي وائل، عن عبد الله، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" بئس ما لاحدهم ان يقول: نسيت آية كيت وكيت، بل نسي واستذكروا القرآن فإنه اشد تفصيا من صدور الرجال من النعم". حدثنا عثمان، حدثنا جرير، عن منصور، مثله. تابعه بشر، عن ابن المبارك، عن شعبة، وتابعه ابن جريج، عن عبدة، عن شقيق، سمعت عبد الله، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہت برا ہے کسی شخص کا یہ کہنا کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا بلکہ یوں (کہنا چاہیے) کہ مجھے بھلا دیا گیا اور قرآن مجید کا پڑھنا جاری رکھو کیونکہ انسانوں کے دلوں سے دور ہو جانے میں وہ اونٹ کے بھاگنے سے بھی بڑھ کر ہے۔ ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے، اور ان سے منصور بن معتمر نے پچھلی حدیث کی طرح۔ محمد بن عرعرہ کے ساتھ اس کو بشر بن عبداللہ نے بھی عبداللہ بن مبارک سے، انہوں نے شعبہ سے روایت کیا ہے اور محمد بن عرعرہ کے ساتھ اس کو ابن جریج نے بھی عبدہ سے، انہوں نے شقیق سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے ایسا ہی روایت کیا ہے۔
حدیث نمبر: 5033

(مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا ابو اسامة، عن بريد، عن ابي بردة، عن ابي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:"تعاهدوا القرآن، فوالذي نفسي بيده لهو اشد تفصيا من الإبل في عقلها".
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن مجید کا پڑھتے رہنا لازم پکڑ لو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ اونٹ کے اپنی رسی تڑوا کر بھاگ جانے سے زیادہ تیزی سے بھاگتا ہے۔

وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلا


صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
28. بَابُ التَّرْتِيلِ فِي الْقِرَاءَةِ:
باب: قرآن مجید کی تلاوت صاف صاف اور ٹھہر ٹھہر کر کرنا۔
حدیث نمبر: Q5043

وقوله تعالى: ورتل القرءان ترتيلا سورة المزمل آية 4، وقوله: وقرءانا فرقناه لتقراه على الناس على مكث سورة الإسراء آية 106 وما يكره ان يهذ كهذ الشعر فيها يفرق سورة الدخان آية 4 يفصل، قال ابن عباس: فرقناه سورة الإسراء آية 106: فصلناه.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ مزمل میں فرمایا «ورتل القرآن ترتيلا‏» اور قرآن مجید کو ترتیل سے پڑھ۔ (یعنی ہر ایک حرف اچھی طرح نکال کر اطمینان کے ساتھ) اور سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا «وقرآنا فرقناه لتقرأه على الناس على مكث‏» اور ہم نے قرآن مجید کو تھوڑا تھوڑا کر کے اس لیے بھیجا کہ تو ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنائے اور شعر و سخن کی طرح اس کا جلدی جلدی پڑھنا مکروہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا اس سورت میں جو لفظ «فرقناه‏» کا لفظ ہے اس کا معنی یہ ہے کہ ہم نے اسے کئی حصے کر کے اتارا۔
حدیث نمبر: 5043

(موقوف) حدثنا ابو النعمان، حدثنا مهدي بن ميمون، حدثنا واصل، عن ابي وائل، عن عبد الله، قال: غدونا على عبد الله، فقال رجل:" قرات المفصل البارحة، فقال: هذا كهذ الشعر، إنا قد سمعنا القراءة، وإني لاحفظ القرناء التي كان يقرا بهن النبي صلى الله عليه وسلم ثماني عشرة سورة من المفصل وسورتين من آل حم".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے، کہا ہم سے واصل احدب نے، ان سے ابووائل نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ ہم ان کی خدمت میں صبح سویرے حاضر ہوئے۔ حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہا کہ رات میں نے (تمام) مفصل سورتیں پڑھ ڈالیں۔ اس پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بولے جیسے اشعار جلدی جلدی پڑھتے ہیں تم نے ویسے ہی پڑھ لی ہو گی۔ ہم سے قرآت سنی ہے اور مجھے وہ جوڑ والی سورتیں بھی یاد ہیں جن کو ملا کر نمازوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے۔ یہ اٹھارہ سورتیں مفصل کی ہیں اور وہ دو سورتیں جن کے شروع میں «حم‏.‏» ہے۔
حدیث نمبر: 5044

(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن موسى بن ابي عائشة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، في قوله:"لا تحرك به لسانك لتعجل به سورة القيامة آية 16، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا نزل جبريل بالوحي وكان مما يحرك به لسانه وشفتيه فيشتد عليه، وكان يعرف منه فانزل الله الآية التي في لا اقسم بيوم القيامة سورة القيامة آية 1، لا تحرك به لسانك لتعجل به {16} إن علينا جمعه وقرءانه {17} فإذا قراناه فاتبع قرءانه {18} سورة القيامة آية 16-18 فإذا انزلناه فاستمع ثم إن علينا بيانه سورة القيامة آية 19، قال: إن علينا ان نبينه بلسانك، قال: وكان إذا اتاه جبريل اطرق، فإذا ذهب قراه كما وعده الله".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے فرمان «لا تحرك به لسانك لتعجل به‏» آپ قرآن کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان کو نہ ہلایا کریں۔ بیان کیا کہ جب جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر نازل ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان اور ہونٹ ہلایا کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے آپ کے لیے وحی یاد کرنے میں بہت بار پڑتا تھا اور یہ آپ کے چہرے سے بھی ظاہر ہو جاتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جو سورۃ «لا أقسم بيوم القيامة‏» میں ہے، نازل کی کہ آپ قرآن کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان کو نہ ہلایا کریں یہ تو ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھوانا تو جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے پیچھے پیچھے پڑھا کریں پھر آپ کی زبان سے اس کی تفسیر بیان کرا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر جب جبرائیل علیہ السلام آتے تو آپ سر جھکا لیتے اور جب واپس جاتے تو پڑھتے جیسا کہ اللہ نے آپ سے یاد کروانے کا وعدہ کیا تھا کہ تیرے دل میں جما دینا اس کو پڑھا دینا ہمارا کام ہے پھر آپ اس کے موافق پڑھتے۔

کروڑوں درود و سلام

خوش رہا کرو



خوش رہا کرو - پریشان رہنے والوں کو کبھی کچھ نہیں ملا - اگر ملا بھی تو وہ اس سے لطف اندوز کبھی نہیں ہو سکے۔

صرف اس لئے کہا تھا کہ میں خود اس دور سے گزر چکا ہوں. برسوں تک خوب دل لگا کر پریشان رہا. شاید اس لئے کہ پریشان ہونا بے حد آسان ہے. لیکن سواۓ اس کے کہ چہرے پر غلط جگہ لائنیں پڑ گئیں ، کوئی فائدہ نہیں ہوا. اب اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ چہرے پر لائنیں پڑنی ہی ہیں تو فقط وہاں پڑنی چاہئیں جہاں مسکرا...ہٹ سے بنتی ہیں۔

۔۔۔ شفیق الرحمن ۔۔۔۔

ایڈمن:#صنم

 
https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982

رفاقتوں کے فیض اعتماد کے دم سے ہیں



رفاقتوں کے فیض اعتماد کے دم سے ہیں۔ بداعتماد انسان نہ کسی کا رفیق ہوتا ہے اور نہ کوئی اسکا کوئی حبیب۔ بداعتمادی کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ انسان کو ایسا کوئی انسان نظر نہیں آتا جس کی تقریب کی وہ خواہش کرے اور نہ ہی وہ خود کو کسی کے تقرب کا اہل سمجھتا ہے۔

٭واصف علی واصف٭

-♡- متاع جَاں -♡-

https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982

کتنی مدت میں قرآن مجید ختم کرنا چاہئے؟


 صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
34. بَابٌ في كَمْ يُقْرَأُ الْقُرْآنُ:
باب: کتنی مدت میں قرآن مجید ختم کرنا چاہئے؟
حدیث نمبر: Q5051

وقول الله تعالى: فاقرءوا ما تيسر منه سورة المزمل آية 20.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان «فاقرءوا ما تيسر منه‏» کہ پس پڑھو جو کچھ بھی اس میں سے تمہارے لیے آسان ہو۔
حدیث نمبر: 5051

(موقوف) حدثنا علي، حدثنا سفيان، قال لي ابن شبرمة:" نظرت كم يكفي الرجل من القرآن، فلم اجد سورة اقل من ثلاث آيات، فقلت: لا ينبغي لاحد ان يقرا اقل من ثلاث آيات". قال علي، قال سفيان، اخبرنا منصور، عن إبراهيم، عن عبد الرحمن بن يزيد، اخبره علقمة، عن ابي مسعود ولقيته وهو يطوف بالبيت، فذكر قول النبي صلى الله عليه وسلم:" انه من قرا بالآيتين من آخر سورة البقرة في ليلة كفتاه".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہا، ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن شبرمہ نے بیان کیا (جو کوفہ کے قاضی تھے) کہ میں نے غور کیا کہ نماز میں کتنا قرآن پڑھنا کافی ہو سکتا ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ ایک سورت میں تین آیتوں سے کم نہیں ہے۔ اس لیے میں نے یہ رائے قائم کی کہ کسی کے لیے تین آیتوں سے کم پڑھنا مناسب نہیں۔ علی المدینی نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم کو منصور نے خبر دی، انہیں ابراہیم نے، انہیں عبدالرحمٰن بن یزید نے، انہیں علقمہ نے خبر دی اور انہیں ابومسعود رضی اللہ عنہ نے (علقمہ نے بیان کیا کہ) میں نے ان سے ملاقات کی تو وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا) کہ جس نے سورۃ البقرہ کے آخری کی دو آیتیں رات میں پڑھ لیں وہ اس کے لیے کافی ہیں۔
حدیث نمبر: 5052

(مرفوع) حدثنا موسى، حدثنا ابو عوانة، عن مغيرة، عن مجاهد، عن عبد الله بن عمرو، قال: انكحني ابي امراة ذات حسب، فكان يتعاهد كنته، فيسالها عن بعلها، فتقول: نعم الرجل من رجل لم يطا لنا فراشا، ولم يفتش لنا كنفا منذ اتيناه، فلما طال ذلك عليه ذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" القني به"، فلقيته بعد، فقال:" كيف تصوم؟" قال: كل يوم، قال:" وكيف تختم؟" قال: كل ليلة، قال:" صم في كل شهر ثلاثة، واقرإ القرآن في كل شهر"، قال: قلت: اطيق اكثر من ذلك، قال:" صم ثلاثة ايام في الجمعة"، قلت: اطيق اكثر من ذلك، قال:" افطر يومين وصم يوما"، قال: قلت: اطيق اكثر من ذلك، قال: صم افضل الصوم، صوم داود، صيام يوم وإفطار يوم، واقرا في كل سبع ليال مرة"، فليتني قبلت رخصة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وذاك اني كبرت وضعفت، فكان يقرا على بعض اهله السبع من القرآن بالنهار والذي يقرؤه يعرضه من النهار ليكون اخف عليه بالليل، وإذا اراد ان يتقوى افطر اياما واحصى وصام مثلهن كراهية ان يترك شيئا، فارق النبي صلى الله عليه وسلم عليه، قال ابو عبد الله: وقال بعضهم: في ثلاث وفي خمس واكثرهم على سبع.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سے مغیرہ بن مقسم نے، ان سے مجاہد بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میرے والد عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے میرا نکاح ایک شریف خاندان کی عورت (ام محمد بنت محمیہ) سے کر دیا تھا اور ہمیشہ اس کی خبرگیری کرتے رہتے تھے اور ان سے باربار اس کے شوہر (یعنی خود ان) کے متعلق پوچھتے رہتے تھے۔ میری بیوی کہتی کہ بہت اچھا مرد ہے۔ البتہ جب سے میں ان کے نکاح میں آئی ہوں انہوں نے اب تک ہمارے بستر پر قدم بھی نہیں رکھا نہ میرے کپڑے میں کبھی ہاتھ ڈالا۔ جب بہت دن اسی طرح ہو گئے تو والد صاحب نے مجبور ہو کر اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے اس کی ملاقات کراؤ۔ چنانچہ میں اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ روزہ کس طرح رکھتے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ روزانہ پھر دریافت فرمایا قرآن مجید کس طرح ختم کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا ہر رات۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر مہینے میں تین دن روزے رکھو اور قرآن ایک مہینے میں ختم کرو۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر بلا روزے کے رہو اور ایک دن روزے سے۔ میں نے عرض کیا مجھے اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر وہ روزہ رکھو جو سب سے افضل ہے، یعنی داؤد علیہ السلام کا روزہ، ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو اور قرآن مجید سات دن میں ختم کرو۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کاش میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کر لی ہوتی کیونکہ اب میں بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہوں۔ حجاج نے کہا کہ آپ اپنے گھر کے کسی آدمی کو قرآن مجید کا ساتواں حصہ یعنی ایک منزل دن میں سنا دیتے تھے۔ جتنا قرآن مجید آپ رات کے وقت پڑھتے اسے پہلے دن میں سنا رکھتے تاکہ رات کے وقت آسانی سے پڑھ سکیں اور جب (قوت ختم ہو جاتی اور نڈھال ہو جاتے اور) قوت حاصل کرنا چاہتے تو کئی کئی دن روزہ نہ رکھتے کیونکہ آپ کو یہ پسند نہیں تھا کہ جس چیز کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے وعدہ کر لیا ہے (ایک دن روزہ رکھنا ایک دن افطار کرنا) اس میں سے کچھ بھی چھوڑیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بعض راویوں نے تین دن میں اور بعض نے پانچ دن میں۔ لیکن اکثر نے سات راتوں میں ختم کی حدیث روایت کی ہے۔
حدیث نمبر: 5053

(مرفوع) حدثنا سعد بن حفص، حدثنا شيبان، عن يحيى، عن محمد بن عبد الرحمن، عن ابي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، قال لي النبي صلى الله عليه وسلم:" في كم تقرا القرآن؟".
ہم سے سعد بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے محمد بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے اور ان سے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ قرآن مجید تم کتنے دن میں ختم کر لیتے ہو؟
حدیث نمبر: 5054

(مرفوع) حدثني إسحاق، اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن شيبان، عن يحيى، عن محمد بن عبد الرحمن مولى بني زهرة، عن ابي سلمة، قال: واحسبني قال: سمعت انا من ابي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقرإ القرآن في شهر، قلت: إني اجد قوة، حتى قال: فاقراه في سبع ولا تزد على ذلك".
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبیداللہ بن موسیٰ نے خبر دی، انہیں شیبان نے، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہیں بنی زہرہ کے مولیٰ محمد بن عبدالرحمٰن نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے، یحییٰ نے کہا اور میں خیال کرتا ہوں شاید میں نے یہ حدیث خود ابوسلمہ سے سنی ہے۔ بلاواسطہ (محمد بن عبدالرحمٰن کے) خیر ابوسلمہ نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ہر مہینے میں قرآن کا ایک ختم کیا کرو میں نے عرض کیا مجھ کو تو زیادہ پڑھنے کی طاقت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا سات راتوں میں ختم کیا کرو اس سے زیادہ مت پڑھ۔

جو غلطی کر نہیں سکتا



"جو غلطی کر نہیں سکتا وہ فرشتہ ہے،
جو غلطی کرکے اس پرڈٹ جاۓ وہ شیطان ہے،
جو غلطی کرکے توبہ کرلے وہ انسان ہے،
اورجو توبہ کرکے اس پر قائم رھے وہ الله کا محبوب بندہ ھے."

●◄ #صنم
 
 
https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982

فلاں انسان اچھا ہے



فلاں انسان اچھا ہے ، فلاں برا ہے ، فلاں جھوٹا ہے ، فلاں منافق ہے ، فلاں بدکار ہے ، فلاں مکار ہے, وغیرہ وغیرہ

یہ ہیں ہمارے اکثر ایک دوسرے کے لئے استعمال کے جانے والے کچھ کلمات ، کچھ آپ کی موجودگی میں اور کچھ غیر موجودگی میں ، قصہ مختصر یہ کہ بعض اوقات تو آپ کو پتا تک نہیں ہوتا اور آپ کے کردار تک کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں .

ہم لوگ ہر وقت اپنے ہاتھ میں ایک پیمانہ لئے گھومتے رہتے ہیں ، جس سے ہر کسی کی اچھائی یا برائی کی پیمائش کی جاتی ہے ، اگر کوئی انسان ہماری اس سے وابستہ توقعات پر پورا نہیں اترتا تو ہم فورا اس پر جھوٹے، مکار ، بدکار ، منافق وغیرہ ہونے کی مہر لگا دیتے ہیں۔

ایسے لگتا ہے کہ یا تو غیب کا علم ہے ہمارے پاس ، یا پھر ہمیں الہام ہو جاتا ہے کہ کون اچھا ہے یا برا !کسی پر بھی کوئی غلط بہتان لگانے سے یا سنی سنائی پر کسی کو بدنام کرنے سے بچنا چاہيے۔ یہ انتہائی گھٹیا فعل ہے جو ہم لوگوں سے جانے انجانے سرزد ہوتا رہتا ہے

اگر ہم خود بہت نیک، عبادت گزار اور پارسا بھی ہوں تب بھی ہمیں ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، اور اگر کبھی ایسا کرنے لگو تو ایک نظر اپنے کردار کے آئینے پر بھی ڈال لینا

یقین جانو ۔ بہت بڑے گناہ سے بچ جاؤ گے

اگر آپ کا ضمیر زندہ ہو ، تو جو برائیاں آپ دوسروں میں ڈھونڈتے ہو ، ان کو جب خود میں تلاش کرو گے تو یہ بھی ممکن ہے کہ خود میں زیادہ مقدار میں پاؤ ، پھر شائد آپ کی سوچ بدل جائے

بقول شاعر

" پڑی اپنے عیبوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا "

الله ہم سب کو نیک ہدایت دے اور دوسروں کی اچھائياں اور اپنی برائياں ديکھنے کی توفي‍ق دے ۔ آمین ثم آمین

پوسٹ پسند آئے تو اِسے شیئر ضرور کیجیے تاکہ ایک اچھی بات کو دوسروں تک پہنچائے جانے کا ذریعہ بن سکیں۔۔۔!!!

●◄ #صنم
 
 
https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982

ماں اور محبت


ماں اور محبت
بؤ علی سینا نے کہا :اپنی زندگی میں محبت کی سب سے اعلی مثال میں نے تب دیکھی
جب سیب چار تھے اور ہم پانچ - تب میری ماں نے کہا ، مجھے سیب پسند ہی نہیں ۔،،

محبت عشق چاہت کا ہے جو رشتہ ہے میری ماں ہے
بشر کے روپ میں گویا فرشتہ ہے میری ماں ہے ؛؛؛

بنا جس کے میری ہستی کے سارے رنگ پھیکے ہیں
وہی ایک دل نشیں خوش رنگ رشتہ ہے میری ماں ہے

●◄ #صنم
 
 
https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982

اللہ

Allah loves those who fear Him

انسان کو خالق نے اس طور



انسان کو خالق نے اس طور پر بنایا ہے کہ اسکا وجود تو ایک ہےلیکن اسکی سائیکی ،سرشت،عقل،قلب جانے کیا کیا کچھ کئی رنگ کے ہیں۔وہ کسی کے ساتھ شیر ہے کسی کے ساتھ بکری،کسی کے ساتھ سانپ بن کر رہتا ہے تو کسی کے لیئے کینچوے سے بد تر ہے۔بدی اور نیکی روز ِ اول سے اسکے اندر دو پانیوں کی طرح رہتی ہیں،ساتھ ساتھ،ملی جُلی علیحدہ علیحدہ جیسے دل کے تیسرے خانے میں گندہ اور صاف خون ساتھ ساتھ چلتا ہے۔۔۔وہ ہمیشہ ڈھلتا ہے ،ہمیشہ بدلتا ہے،کہیں قیام نہیں،کہیں قرار نہیں۔۔۔وہ ایک زندگی میں ایک وجود میں ایک عمر میں لاتعداد روحیں ان گنت تجربات اور بے حساب نشو نما کا حامل ہوتا ہے،اس لیئے افراد مرتے ہیں انسان مسلسل رہتا ہے۔۔۔۔ہم اس تہہ در تہہ کو نہیں سمجھ سکتے،ہمیں انسان کی پرت کھولنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔۔وہ رزق حرام سے دیوانہ ہو کہ تضاد سے،عشق لاحاصل سے کہ تلاش بے سُود سے،ہم جسکی سرشت کو نہیں سمجھ سکتے اسکی دیوانگی کا بھید ہم پر کیا کھُلے گا۔۔۔۔۔۔۔

بانو قدسیہ کے ناول راجہ گدھ سے اقتباس

ایڈمن:#صنم


https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982

ہر آدمی کا آخری وقت مقرر ہے



ہر آدمی کا آخری وقت مقرر ہے..کسی پر سوتے ہوئے وہ وقت آجاتا ہے کوئی راہ چلتے پکڑ لیا جاتا ہے..کوئی بستر پر بیمار ہو کے مرتا ہے..یہ وقت بہرحال ہر ایک پر آنا ہے..خواہ وہ ایک صورت میں آئے یا کسی دوسری صورت میں...
موت کا یہ واقعہ بھی کیسا عجیب ہے..ایک جیتی جاگتی زندگی اچانک بجھ جاتی ہے ایک ہنستا ہوا چہرہ لمحہ بھر میں اس طرح ختم ہوجاتا ہے..جیسے کہ وہ مٹی سے بھی زیادہ بےقیمت تھا... حوصلوں اور تمناؤں سے بھری ہوئی ایک روح اس طرح منظرِ عام سے ہٹا دی جاتی ہے جیسے اس کے حوصلوں اور تمناؤں کی کوئی قیمت ہی نہ تھی...
زندگی کس قدر بامعنی ہے..مگر اس کا انجام اس کو کس قدر بےمعنی بنا دیتا ہے..آدمی بظاہر کتنا آزاد ہے مگر موت کے سامنے کس قدر مجبور ہے..آدمی اپنی خواہشوں اور تمناؤں کو کتنا زیادہ عزیز رکھتا ہے..مگر قدرت کا فیصلہ اس کی خواہشوں اور تمناؤں کو کس قدر بےرحمی سے کچل دیتا ہے...
آدمی اگر صرف اپنی موت کو یاد رکھے تو کبھی سرکشی نہ کرے..بہتر زندگی کا واحد راز یہ ہے..کہ ہر آدمی اپنی حد کے اندر رہنے پر راضی ہوجائے.. اور موت بلاشبہ اس حقیقت کی سب سے بڑی معلم ہے..
موت آدمی کو بتاتی ہے کہ وہ کسی کو حقیر نہ سمجھے..کیونکہ ایک وقت آنے والا ہے جب کہ وہ خود سب سے زیادہ حقیر ہوگا..موت آدمی کو یاد دلاتی ہے کہ وہ کسی کو نہ دبائے.. کیونکہ بہت جلد وہ خود ہزاروں من مٹی کے نیچے دبا ہوا ہوگا.

پوسٹ پسند آئے تو اِسے شیئر ضرور کیجیے تاکہ ایک اچھی بات کو دوسروں تک پہنچائے جانے کا ذریعہ بن سکیں۔۔۔!!!

ایڈمن:#صنم
 
 
 
 
 https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982

انسان کے جسم کے ہر عضو



انسان کے جسم کے ہر عضو کا کوئی نہ کوئی کام ہوتا ہے۔ آنکھ کا کام ہے دیکھنا، کان کا کام ہے سننا، زبان کا کام ہے بولنا اور دل کا کام ہے محبت کرنا۔
دل یا تو اللّٰہ تعالٰی سے محبت کرے گا یا پھر مخلوق سے، اس کے دل کے میں یا تو آخرت کی محبت ہوگی یا پھر دنیا کی۔ آخرت کی محبت سے دل میں نیکی کا شوق پیدا ہوتا ہے، جبکہ دنیا کی محبت کے بارے میں حدیثِ مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ ......!
''دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔''
مشائخ کرام نے اس کی آگے پھر تفصیل بیان کردی کہ ''اس کا ترک کردینا ہر ایک فضیلت کی کنجی ہے۔ دنیا کی محبت کا دل سے نکل جانا اور پروردگار کی محبت کا دل میں سما جانا کامل مومن ہونے کی نشانی ہے۔''
قرآنِ پاک میں مومنین کی کچھ صفات بیان کی گئیں ہیں، جو اللّٰہ رب العزت کو اتنی پسندیدہ ہیں کہ مولا کریم نے ان صفات والے بندوں کے بارے میں اعلان فرما دیا کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں، جیسے فرمایا......

* وَ اَحسنُوا ________تم نیکوکار بن جاؤ
* ان اللّٰہ یحب المحسنین _____ بیشک اللّٰہ نیکوکار سے محبت فرماتا ہے۔
* ویحب المتقین _______ اور اللّٰہ تعالٰی متقی لوگوں سے محبت فرماتا ہے۔
* ان اللّٰہ یحب التوابین _____ بیشک اللّٰہ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
* ویحب المتطھرین _________ اور پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
والله يُحِب الصابرين ______اور الله صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
"معلوم یہ ہوا کہ اللّٰہ تعالی کو ان صفات سے محبت ہے۔ جس انسان میں یہ صفات آجائیں گی وہ انسان بھی اللّٰہ رب العزت کا محبوب بن جائے گا۔"
جو بندہ ان صفات کو پیدا کرنے کے لئےمحنت کرے گا، اللّٰہ رب العزت اس بندے سے محبت فرمائیں گے۔ رنگ کا گورا ہو یا کالا،عجم ہو یا عرب کا، پروردگار کی نظر میں کوئی فرق نہیں۔ وہ تو دل کا حال دیکھتا ہے۔ نام بلال رضی اللّٰہ عنہ ہے ہونٹ موٹے ہیں، شکل انوکھی ہے، رنگ کے کالے ہیں ، مگر دل ''محبت الہی'' سے لبریز ہے۔ اس محبت کے ساتھ زمین پر چلتے ہیں کہ پاؤں کی چاپ (آواز) جنت میں سنائی دیتی ہے........... اللّٰہ اکبر!
''محبتِ الہی '' سے ماخوذ.....

●◄ #صنم
 
 
 https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982

بہار

کانٹے

آمـــیـن

دعاء

Wednesday, October 28, 2015

زندہ

عبادت

یومِ عاشورہ کی فضیلت



٭٭ یومِ عاشورہ کی فضیلت ٭٭

►(۱) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ما رأیتُ النبیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ہذا الیومَ یومَ عاشوراءَ وہذا الشہرَ یعنی شہرَ رَمَضَان
(بخاری شریف۱/۲۶۸، مسلم شریف ۱/۳۶۰،۳۶۱)

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔

مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔

►(۲) عن أبی قتادة رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: انّي أحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ أنْ یُکفِّر السنةَ التي قَبْلَہ․
(مسلم شریف ۱,۳۶۷، ابن ماجہ ۱۲۵)

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (ابن ماجہ کی ایک روایت میں ”السنة التی بعدہا“ کے الفاظ ہیں) کذا فی الترغیب۲/۱۱۵)

یوم عاشوراء بہت ہی عظمت وتقدس کا حامل ہے؛ لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔

شئیر کرنا مت بھولیں۔ جزاک اللہ خیر

ایڈمن:#صنم
 
 
https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982

رب درود پڑھتا ہے اور سب فرشتے بھی



رب درود پڑھتا ہے اور سب فرشتے بھی
ذکر ہر پہَر ہر لب مصطفےٰ ﷺ کا کرتا ہے

علم و حکمت و عرفاں رشد و عشق اور وجداں
اعتراف ہر منصب مصطفےٰ ﷺ کا کرتا ہے

جھوم جھوم کر یہ دل کیوں نہ نامِ احمد لے
ذکر ناز سے جب رب مصطفےٰ ﷺ کا کرتا ہے

#صلی_اللہ_علیہ_وسلم

آج جمعہ کامبارک دن ہے زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں

●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
اللَّهُـمّ صَــــــلٌ علَےَ مُحمَّــــــــدْ و علَےَ آل مُحمَّــــــــدْ
كما صَــــــلٌيت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ
مَجِيدٌ اللهم بارك علَےَ مُحمَّــــــــدْ و علَےَ آل مُحمَّــــــــدْ كما
باركت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●

ایڈمن:#صنم
 
 
 
https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982