انسان
شخصی ارتقا کے ابتدائی ادوار میں" گیلی مٹی " کی ماند ہوتےہیں۔ جنھیں
معاشرے کا " کمہار " تربیت کے " چاک " پر دھرتا ہے اور بازار حیات کی "
مانگ " کو مد نظر رکھ کر اپنی نیت اور چاہت کے ہاتھوں سے ایک خاص سانچیےمیں
ڈھالتا ہے۔ اس قالب سازی کے دوران اس کی" انگلیاں" ہر " برتن " کے بدن پر
ریتوں، رواجوں، مذہب، سیاست، جذبوں، خوابوں اور سرابوں کی ان گنت پیچیدہ
تحریریں رقم کرتی ہیں۔ گیلی مٹی کے یہ " سانچے
" حالات کے " آوے " میں ڈھلتے ہیں۔ ان مراحل س گزرتے ہوئے ہر برتن کا "
ظرف "اور "نصیب " اس کے ہئیت کا تعین کرتا ہے۔ کچھ " سفال گر " کی بے توجہی
کا شکار ہو جاتےہیں، کچھ اس کے اناڑی پن کی نظر ہوتے ہیں۔ کچھ " آوے " کی
"دہک " برداشت نہیں کر پاتے اور تڑخ جاتے ہیں،کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو
بازار تک پہنچتے ہیں مگر انہیں کوئی " خریدار " میسر نہیں آتا۔ ان کا نصیب
اور بازار کا اسلوب ہر " ظرف " کا مقام طے کرتا ہے۔ گل دان اور پیکدان میں
ساخت کا فرق بھلے نہ ہو،مگر نصیب کا فرق ضرور ہوتا ہے۔
(بشریٰ سعید کے ناول ’’سفال گر‘‘ کے پیشِ لفظ سے اقتباس)
(بشریٰ سعید کے ناول ’’سفال گر‘‘ کے پیشِ لفظ سے اقتباس)
https://www.facebook.com/pages/Mata-e-jaan/1518354521770982
No comments:
Post a Comment