Thursday, October 29, 2015

وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلا


صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
28. بَابُ التَّرْتِيلِ فِي الْقِرَاءَةِ:
باب: قرآن مجید کی تلاوت صاف صاف اور ٹھہر ٹھہر کر کرنا۔
حدیث نمبر: Q5043

وقوله تعالى: ورتل القرءان ترتيلا سورة المزمل آية 4، وقوله: وقرءانا فرقناه لتقراه على الناس على مكث سورة الإسراء آية 106 وما يكره ان يهذ كهذ الشعر فيها يفرق سورة الدخان آية 4 يفصل، قال ابن عباس: فرقناه سورة الإسراء آية 106: فصلناه.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ مزمل میں فرمایا «ورتل القرآن ترتيلا‏» اور قرآن مجید کو ترتیل سے پڑھ۔ (یعنی ہر ایک حرف اچھی طرح نکال کر اطمینان کے ساتھ) اور سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا «وقرآنا فرقناه لتقرأه على الناس على مكث‏» اور ہم نے قرآن مجید کو تھوڑا تھوڑا کر کے اس لیے بھیجا کہ تو ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنائے اور شعر و سخن کی طرح اس کا جلدی جلدی پڑھنا مکروہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا اس سورت میں جو لفظ «فرقناه‏» کا لفظ ہے اس کا معنی یہ ہے کہ ہم نے اسے کئی حصے کر کے اتارا۔
حدیث نمبر: 5043

(موقوف) حدثنا ابو النعمان، حدثنا مهدي بن ميمون، حدثنا واصل، عن ابي وائل، عن عبد الله، قال: غدونا على عبد الله، فقال رجل:" قرات المفصل البارحة، فقال: هذا كهذ الشعر، إنا قد سمعنا القراءة، وإني لاحفظ القرناء التي كان يقرا بهن النبي صلى الله عليه وسلم ثماني عشرة سورة من المفصل وسورتين من آل حم".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے، کہا ہم سے واصل احدب نے، ان سے ابووائل نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ ہم ان کی خدمت میں صبح سویرے حاضر ہوئے۔ حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہا کہ رات میں نے (تمام) مفصل سورتیں پڑھ ڈالیں۔ اس پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بولے جیسے اشعار جلدی جلدی پڑھتے ہیں تم نے ویسے ہی پڑھ لی ہو گی۔ ہم سے قرآت سنی ہے اور مجھے وہ جوڑ والی سورتیں بھی یاد ہیں جن کو ملا کر نمازوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے۔ یہ اٹھارہ سورتیں مفصل کی ہیں اور وہ دو سورتیں جن کے شروع میں «حم‏.‏» ہے۔
حدیث نمبر: 5044

(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن موسى بن ابي عائشة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، في قوله:"لا تحرك به لسانك لتعجل به سورة القيامة آية 16، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا نزل جبريل بالوحي وكان مما يحرك به لسانه وشفتيه فيشتد عليه، وكان يعرف منه فانزل الله الآية التي في لا اقسم بيوم القيامة سورة القيامة آية 1، لا تحرك به لسانك لتعجل به {16} إن علينا جمعه وقرءانه {17} فإذا قراناه فاتبع قرءانه {18} سورة القيامة آية 16-18 فإذا انزلناه فاستمع ثم إن علينا بيانه سورة القيامة آية 19، قال: إن علينا ان نبينه بلسانك، قال: وكان إذا اتاه جبريل اطرق، فإذا ذهب قراه كما وعده الله".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے فرمان «لا تحرك به لسانك لتعجل به‏» آپ قرآن کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان کو نہ ہلایا کریں۔ بیان کیا کہ جب جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر نازل ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان اور ہونٹ ہلایا کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے آپ کے لیے وحی یاد کرنے میں بہت بار پڑتا تھا اور یہ آپ کے چہرے سے بھی ظاہر ہو جاتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جو سورۃ «لا أقسم بيوم القيامة‏» میں ہے، نازل کی کہ آپ قرآن کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان کو نہ ہلایا کریں یہ تو ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھوانا تو جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے پیچھے پیچھے پڑھا کریں پھر آپ کی زبان سے اس کی تفسیر بیان کرا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر جب جبرائیل علیہ السلام آتے تو آپ سر جھکا لیتے اور جب واپس جاتے تو پڑھتے جیسا کہ اللہ نے آپ سے یاد کروانے کا وعدہ کیا تھا کہ تیرے دل میں جما دینا اس کو پڑھا دینا ہمارا کام ہے پھر آپ اس کے موافق پڑھتے۔

No comments:

Post a Comment