Saturday, June 20, 2015

اگر پاس ہوتا تو تجھ کو سناتا



اگر پاس ہوتا تو تجھ کو سناتا
دکھوں کی کہانی
کہانی کہ جس میں بہت ہے روانی
کہانی کہ جو یاد آئے کبھی تو
ٹپکتا ہے آنکھوں سے
مصرعوں کی صورت معطر سا پانی
مری نظم ہوتی ہے پھر جاودانی

اگر پاس ہوتا تو تجھ کو بتاتا
کہ جیون ترے سنگ جتنا گزارا
وہ جیون ہی جیون کا اب ہے سہارا
وہ پلکوں پہ ٹھہرا ہوا اک ستارا
مری نظم کااک حسیں استعارا

اگر پاس ہوتا تو تجھ کو دکھاتا
وہ کاغذ قلم
جن کو تُو نے چھوااور
مرے دل پہ سب کچھ رقم ہو گیا تھا
مجھے غم ملا اور
زمانے میں مَیں محترم ہو گیا تھا
تجھے میں دکھاتا
وہ کاپی وہ بستہ
وہ بستہ بنا جو محبت کا رستہ
وہ رستہ کہ جو راستہ تو نہیں تھا
مگر ہم کبھی اُس پہ تھکتے نہیں تھے
بھٹکتے تھے لیکن بھٹکتے نہیں تھے
یہ پلکوں سے موتی چھلکتے نہیں تھے

اگر پاس ہوتا۔۔۔
مگرپاس ہوتا تو پھر میرے دامن میں
اشکوں بھری یہ کہانی نہ ہوتی
مری نظم میں گو روانی نہ ہوتی
مگر ہر طرف رائیگا نی نہ ہوتی

رضی الدین رضی

#دلِ_مضطر


No comments:

Post a Comment