Saturday, June 20, 2015

یہ حسین شام اپنی

یہ حسین شام اپنی
ابھی جس میں گھل رہی ہے
ترے پیرہن کی خوشبو
ابھی جس میں کھل رہے
ہیں میرے خواب کے شگوفے
ذرا دیر کا ہے منظر
ذرا دیر میں افق پہ
کھلے گا کوئی ستارہ
تری سمت دیکھ کر وہ
کرے گا کوئی اشارہ
ترے دل کو آئیگا پھر
کسی یاد کا بلاوا
کوئی قصہء جدائی
کوئی کار نا مکمل
کوئی خواب نا شگفتہ
کوئی بات کہنے والی
کسی اور آدمی سے
ہمیں چاہیے تھا ملنا
کسی عہد مہرباں میں
کسی خواب کے یقیں میں
کسی اور آسماں میں
کسی اور سر زمیں میں

Angel

No comments:

Post a Comment